الحمد للہ.
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، اللہ تعالی آپ کی اس غلطی کو معاف فرمائے، اللہ تعالی کے دین میں جہالت پر مبنی بات کرنا بہت برا عمل ہے، اس عمل کو اللہ تعالی نے شرک کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: آپ ان سے کہیے کہ میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں: ’’بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کی اللہ تعالی نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں‘‘ [الاعراف: 33]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ اپنائے اور اس پر عمل کیا جانے لگے تو آغاز کرنے والے کے لیے بھی عمل کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا، اور عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ اپنائے اور اس پر عمل کیا جانے لگے تو آغاز کرنے والے کے لیے بھی عمل کرنے والوں کے گناہ کے برابر گناہ ہو گا، اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں سے کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔) امام مسلم: (1017) نے اسے جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کبیرہ گناہ پر اللہ تعالی سے معافی طلب کریں، اور استغفار کریں، میں بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی سچی توبہ قبول فرمائے۔
یہ بھی لازم ہے کہ آپ اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کے لیے ان تمام خواتین کو صحیح بات بتلائیں جنہوں نے آپ کی غلط بات سنی تھی۔
آپ نے سوال میں پوچھا کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو کیا کرنا چاہیے؟
تو اس حوالے سے یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کی کچھ حالتیں ہیں:
پہلی حالت: نمازی کے آگے سے گزرنے والا شخص سجدے اور قیام کی جگہ کے درمیان سے گزرے، تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گناہ ہو گا تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی بجائے 40 تک کھڑا رہے یہ اس کے لیے بہتر ہے۔) حدیث کے ایک راوی ابو نضر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ 40 سے مراد دن، ہیں یا مہینے ہیں یا سال؟ اس حدیث کو امام بخاری: (510) اور مسلم : (507) نے ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اس حالت میں سترہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں حکم یکساں ہے۔
دوسری حالت: انسان سجدے کی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرے ، تو اس کی پھر آگے دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت: نمازی نے سترہ رکھا ہوا ہو، تو اس صورت میں سترے کے بعد سے گزرنا جائز ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے، اور اگر کوئی چیز نہ ملے تو اپنے سامنے ڈنڈا گاڑ لے، اور اگر ڈنڈا بھی نہ ہو تو اپنے سامنے خط کھینچ لے، اب کوئی شخص ان کے بعد سے گزرے گا تو نمازی کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔) اس حدیث کو امام احمد: (3/15) ، ابن ماجہ: ( 3063) اور ابن حبان: ( 2361) نے روایت کیا ہے۔ امام ابن حجر بلوغ المرام : (249) میں کہتے ہیں کہ : اس روایت کو مضطرب کہنے والے کا موقف صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ روایت حسن ہے۔
اسی طرح سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر چیز رکھ لے تو نماز پڑھے، اور اس لکڑی کے آگے سے گزرنے والوں کی پرواہ نہ کرے۔) مسلم: (499)
دوسری صورت: نمازی نے اپنے آگے سترہ نہیں رکھا ہوا، تو یہاں نمازی کے سجدے کی جگہ تک جگہ چھوڑنا لازم ہو گا، اہل علم کا یہ معتبر ترین موقف ہے۔ لہذا ایسے نمازی کے آگے سے گزرنے والا شخص نمازی کے سجدے کی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں نمازی کے سامنے سے گزرنے کی ممانعت ہے، اور سامنے والے حصے میں سجدے کی جگہ کے بعد والی جگہ شامل نہیں ہوتی۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے نمازی کے آگے والے فاصلے کے تعین کے متعلق اہل علم کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
"ان تمام اقوال میں سے بہترین قول یہ ہے کہ: یہ فاصلہ نمازی کے دونوں قدموں سے لے کر سجدہ کرنے کی جگہ تک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نمازی کو نماز کے لیے صرف اتنی ہی [پاؤں سے لے کر سجدہ کی جگہ تک] جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا نمازی یہ نہیں کر سکتا کہ جس جگہ کی نمازی کو خود ضرورت نہیں ہے وہاں سے دوسروں کو بھی روکے۔" ختم شد
الشرح الممتع ( 3 / 340 )
یہ تمام صورتیں تب ہیں جب نمازی اکیلا ہو یا امام ہو، لیکن اگر نمازی مقتدی ہو تو پھر امام کا سترہ بھی مقتدی کا سترہ ہو گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے کہ: باب ہے اس بیان میں کہ : امام کا سترہ مقتدی کا سترہ ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں جس وقت قریب البلوغت تھا تو ایک بار اپنی گدھیا پر سوار ہو کر آیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت منی میں دیوار کی بجائے کسی اور چیز کو سامنے کر کے نماز پڑھا رہے تھے، تو میں صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرا، اور اپنی گدھیا کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا، میرے اس عمل پر مجھے کسی نے نہیں روکا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (76) اور مسلم : (504) نے روایت کیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ "المغنی"( 2/42 ) ، ( 2/46 ) کا مطالعہ کریں۔
اہل علم کے صحیح موقف کے مطابق مکہ اور غیر مکہ کا سترے کے حوالے سے یکساں حکم ہے؛ کیونکہ دلائل میں عموم پایا جاتا ہے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس میں مکہ کو اس عموم سے خاص درجہ حاصل ہو، یہی موقف الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے۔
دیکھیں: الشرح الممتع 3 / 342
واللہ اعلم