الحمد للہ.
ہماری محترمہ بہن، اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے۔
ایسی صورت حال میں کسی بھی فیصلے سے قبل کچھ معاملات کو دیکھنا ضروری ہے، ان معاملات کی وجہ سے فیصلے کی نوعیت بدل سکتی ہے۔
آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے خاوند کا ظاہری طور پر اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟ کیا وہ نماز پڑھتا ہے؟ اور کیا وہ ظاہری طور پر ہی سہی دینی شعائر کا احترام کرتا ہے؟
زندگی کے دیگر معاملات میں آپ کے ساتھ اس کا تعامل کیسا ہے؟ کیا جنسی تعلقات کے علاوہ دیگر چیزوں میں وہ آپ کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتا ہے؟ کیا آپ پر اور اپنے بچوں پر خرچ کرتا ہے؟
اپنے بچوں کے ساتھ اس کا تعلق کیسا ہے؟ کیا ان پر توجہ دیتا ہے؟ اور کیا ان کے معاملات پر نظر بھی رکھتا ہے یا نہیں؟
اسی طرح وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اور آپ کے یعنی سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کیسا تعلق رکھتا ہے؟ کیا ان کے ساتھ سنگ دلی سے پیش آتا ہے یا ان سے اچھا تعلق اور تعامل اپنائے ہوئے ہے؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب مثبت ہو، اور عام طور پر وہ اچھا برتاؤ ہی کرتا ہو تو پھر طلاق لینے کے لیے جلد بازی مت کریں؛ کیونکہ عام طور پر ایسی صورت حال میں جب بیوی طلاق طلب کرتی ہے تو جدائی ہی نتیجہ بنتی ہے۔
اسی طرح مذکورہ صورت حال میں جنسی تعلقات کے بارے میں کسی معتمد خاتون معالج سے بھی مشورہ کریں، تا کہ آپ کسی بھی بیماری کی منتقلی سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکیں، واضح رہے کہ کنڈوم سے عام طور پر جنسی تعلقات سے پھیلنے والی بیماریاں منتقل نہیں ہوتیں۔
مزید ہم آپ کو یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اپنے خاوند کو اپنے قریب لانے کے تمام ممکنہ ازدواجی طریقے بروئے کار لائیں، آپ اپنے خاوند کو حرام کام سے متنفر بھی کریں، آپ بالواسطہ اسے بتلائیں کہ اس کا انجام کتنا بھیانک ہو سکتا ہے، مثلاً: آپ ان کے سامنے انہی معاملات سے متعلقہ لٹریچر ، دروس، تقاریر، شرعی فتاوی جات، اور کہانیاں وغیرہ رکھیں۔
اور اگر مذکورہ بالا تمام سوالات کا جواب منفی ملتا ہے ، خاوند بچوں اور رشتہ داروں سمیت آپ کے ساتھ بد سلوکی بھی کرتا ہو تو پھر ہم آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ اپنے خاندان کے صاحب عقل دانش محرم افراد سے رابطہ کریں، تا کہ طلاق کے معاملے میں غور و خوض کر سکیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (7669 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم