سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اگر قرآن مجید پر گندگی لگ جائے تو کس طرح پاک کریں

262970

تاریخ اشاعت : 05-07-2017

مشاہدات : 10409

سوال

اگر غیر ارادی طور پر قرآن مجید پر گندگی لگ جائے تو کیا صرف پانی بہانے سے پاک ہو جائے گا؟ یا ہم پانی بہا کر ٹشو پیپر یا فوم وغیرہ سے خشک بھی کریں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن مجید کو گندگی  سے پاک صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ )
ترجمہ: اور جو بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقوی میں سے ہے۔[الحج:32 ]

وقال الله تعالى : (وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ )
ترجمہ: اور جو بھی اللہ تعالی کی حرمت والی چیزوں کا تعظیم کرے تو یہ اس کیلیے بہتر ہے۔[الحج :30]

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آیت میں مذکور " حُرُمَاتِ" سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سنن اور فرائض سے متعلق احکامات کی پاسداری کریں، چنانچہ فرائض میں اللہ تعالی نے یہ بھی شامل فرمایا ہے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث  کا احترام کیا جائے۔

اسی طرح آیت میں مذکور " شَعَائِرَ " سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف سے حکم موجود ہے، اللہ تعالی نے اس کا تعارف کروایا  ہے یا اسے علامت قرار دیا، چنانچہ ان میں قرآن مجید اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  بھی شامل ہے۔" انتہی
" فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم" (2 / 32)

قرآن مجید کے اوراق کی حفاظت کرنا، انہیں گندگی سے بچانا بھی قرآن مجید کی تعظیم اور احترام میں شامل ہے، بلکہ قرآن مجید کے احترام پر سب اہل علم کا اجماع ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مسلمانوں کا قرآن مجید کے احترام اور  تحفظ کے متعلق اجماع ہے۔

نیز ہمارے [شافعی] فقہائے کرام کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ: اگر کوئی  مسلمان قرآن مجید کو -نعوذ باللہ-گندگی میں پھینک دے  تو وہ کافر ہو جائے گا۔

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ : قرآن مجید پر ٹیک لگانا حرام ہے، بلکہ کسی بھی شرعی علم کی کتاب کو تکیہ بنانا حرام ہے" انتہی
" التبيان في آداب حملة القرآن" (ص 190 - 191)

اس بنا پر مصحف کو گندگی لگنے پر اسے فورا پاک صاف کرنا واجب ہے۔

دوم:

قرآن مجید کے جس حصے کو دھونے کی وجہ سے اس کے خراب ہونے کا خدشہ ہو تو پھر گندگی ہٹانے کیلیے پانی سے دھونا ضروری نہیں ہے بلکہ کوئی بھی ایسا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے کاغذ وغیرہ خراب بھی نہ ہو اور گندگی  بھی زائل ہو جائے، مثلاً: ٹشو پیپر سے صاف کر دیں یا پھر ہوا  یا دھوپ یا کسی بھی مناسب چیز کے سامنے رکھ کر خشک  کر لیں، مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کے صفحات وغیرہ کو مزید نقصان پہنچائے بغیر جس طریقے سے بھی گندگی کا ازالہ ممکن ہو ازالہ کر دیا جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر گندگی ایسی جگہ پر لگی ہوئی ہے جسے دھونے سے صفحات خراب ہو جائیں گے، مثلاً: ریشم کے کپڑے پر  لکھا ہوا ہے یا کاغذ وغیرہ پر لکھا ہو  اور دھونے سے روشنائی بھی دھل جائے گی تو علمائے کرام کی دو آرا   میں سے صحیح ترین رائے کے مطابق اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ: پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے نجاست زائل کرنے  کے متعلق فقہ حنبلی اور دیگر فقہی مذاہب  کے علمائے کرام کے  تین اقوال ہیں۔

چنانچہ ایک قول  یہ ہے کہ : کوئی بھی چیز جس سے گندگی زائل کرنا ممکن  ہے تو اس سے گندگی زائل کی جا سکتی ہے، یہ موقف ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے اور یہ مضبوط موقف ہے۔

دوسرا قول: صرف پانی سے گندگی زائل کرنا جائز ہے، یہ شافعی کا موقف ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ: ضرورت کے وقت غیر پانی سے گندگی زائل کرنا جائز ہے، یہ امام  مالک کا موقف ہے" انتہی
"جامع المسائل" (9/313-314)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں راجح موقف یہی ہے کہ: نجاست جس طریقے سے بھی زائل ہو جائے  نجاست کا حکم بھی زائل ہو جائے گا؛ کیونکہ جس چیز [یعنی نجاست]کی وجہ سے  حکم تبدیل ہوا تھا اس نجاست کے زائل ہونے سے حکم بھی زائل ہو جائے گا۔۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/475)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف یہ ہے کہ: کسی بھی چیز سے نجاست زائل ہو گئی تو وہ جگہ پاک ہو جائے گی؛ کیونکہ نجاست ایک نظر آنے والی چیز کا نام ہے، جب وہ زائل ہو گئی تو اس کا حکم بھی زائل ہو گیا، لہذا نجاست کوئی غیر مرئی وصف نہیں ہے جیسے  کہ بے وضگی میں ہوتا ہے، جو کہ اسی طریقے سے زائل ہو گی جو شریعت نے ہمیں بتلایا ہے۔

فقہائے کرام رحمہم اللہ کہتے ہیں: جب بہت زیادہ نجس پانی  میں آنی والی تبدیلی خود بخود ختم  ہو جائے تو وہ پانی پاک ہو جائے گا، اسی طرح جب شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو وہ بھی پاک ہو جاتا ہے" اور یہ دلیل ہے کہ بغیر پانی کے بھی چیزیں پاک ہو سکتی ہیں۔

لہذا سابقہ دلائل میں کسی چیز کو پاک صاف کرنے کیلیے جہاں بھی پانی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ پانی سے ہی چیزوں کو پاک صاف کرنا لازمی ہے! بلکہ وہاں پانی کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس سے نجاست فوری زائل ہو جاتی ہے اور اس میں مکلف افراد کیلیے آسانی کا پہلو بھی ہے۔" انتہی
"الشرح الممتع" (1/30)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب