سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

علمى مراجع كى نشروتاليف اور فوٹوسٹيٹ كرنے كے حقوق كا حكم

سوال

كيا تعليم كى غرض سے علمى مراجع كى فوٹو كروانى حرام ہے؟ آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ اس كتاب كى قيمت بہت زيادہ ہے جس وجہ سے فوٹو كروانى پڑتى ہے؟
اور كيا اگر فوٹو ميں كوئي نفع ہو تو كيا يہ حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ نشرو اشاعت اور تاليف كے حقوق صاحب حق اور ان كے ورثاء كے ليے معتبر ہيں، اور اسے ہاتھ سے نقل كرنا يا شخصى مقصد كے ليے فوٹو كروانے ميں كوئي حرج نہيں جبكہ اس ميں بيع اور تجارت كا مقصد نہ ہو اور صاحب تاليف نے خاص نقل سے ممانعت نہ كر ركھى ہو، ليكن اگر وہ تجارت اور بيع كى بنا پر فوٹو كروائے تو يہ ممنوع ہے.

شيخ بكر بن عبداللہ ابو زيد كا كہنا ہے:

بلاشبہ يہ فقرے اور الفاظ جو تاليف كو ضائع ہونے سے اور اس ميں دخل اندازى سے بچاتے ہيں، اور مولف كے ليے اس كى كوشش اور قيم كى حفاظت كرتے ہيں، اور يہ ان اشياء ميں سے ہے جو اسلام ميں ضرورى معلوم ہيں، اور اس پر پورى وضاحت سے شرعى نصوص اور اس كے قواعد و ضوابط دلالت كرتے ہيں جو آپ كو " آداب المؤلفين" اور " كتب الاصلاح" ميں لكھے ہوئے مليں گے. ديكھيں: فقہ النوازل ( 2 / 65 ).

اور اسلامى فقہ اكيڈمى كا معنوى حقوق كے متعلق اجلاس ہوا جس ميں مندرجہ ذيل فيصلہ كيا گيا:

اول:

تجارتي نام، تجارتي پتہ، ٹريڈ مارك، تاليف اورايجاد يا ابتكار يہ سب ايسےحقوق ہيں جوانہيں اختيار كرنےوالوں كےليےخاص ہےاور دور حاضر ميں اسے مالي قيمت حاصل ہے اور لوگوں ميں اس كي ماليت بنانا معروف ہے، اور انہيں شرعا بھي حقوق شمار كيا جائےگا، لھذا اس پر زيادتي كرنا جائز نہيں.

دوم:

مالى عوض ميں تجارتى نام، يا تجارتى پتہ، يا ٹريڈ مارك، ميں تصرف اورتبديلى يا اس ميں سے كچھ نقل كرنا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ جب اس ميں دھوكہ و فراڈ اور ہيرا پھيرى كا نہ ہو اس ليے كہ يہ ايك مالى حق بن چكا ہے.

سوم:

تاليف اور ايجاد اور ابتكار كے حقوق شرعى طور پر محفوظ اور ان كا خيال ركھا گيا ہے، ان كا حق ركھنے والوں كو اس ميں تصرف كا حق حاصل ہے اور اس ميں كسى دوسرے كےليے زيادتى كرنے كا حق نہيں.

ديكھيں: مجلۃ المجمع عدد نمبر ( 5 ) جلد نمبر ( 3 ) صفحہ نمبر ( 2267 ).

مستقل علمى ريسرچ كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

نفع مند كيسٹوں كى ريكارڈنگ اور كتابوں كى فوٹو كركے فروخت كرنے ميں كوئى مانع نہيں، كيونكہ اس ميں علم كى نشرو اشاعت ہے ليكن اگر ان كے مالك اس سے منع كريں تو پھر ان كى اجازت حاصل كرنا ضرورى ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 187 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 454 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب