الحمد للہ.
ماہ رمضان بہت ہی عظیم اور بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اسے خیر و بھلائی کا موسم بنایا ہے، تقوی اور برکتیں سمیٹنے کا موقع بنایا ہے، اسی ماہ میں اللہ تعالی نے قرآن کریم نازل فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْه
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ [البقرۃ: 185]
چنانچہ ماہ رمضان غنیمت اور منافع سے بھر پور ماہ ہے، اور عقلمند تاجر منافع بخش موقعوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا اور اپنے منافع میں اضافہ کرتا ہے، اس لیے ماہ رمضان سے ہم فائدہ تبھی اٹھا سکتے ہیں جب زیادہ سے زیادہ عبادت کریں گے، کثرت سے نماز پڑھیں گے، قرآن کریم کی تلاوت کریں گے ، لوگوں کو معاف کریں، دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں، غریبوں پر صدقہ کریں اور اس کے علاوہ دیگر نیکی کے کام کریں۔
اسی لیے رسول اللہ بھی رمضان میں خصوصی طور پر اتنی عبادات کرتے تھے کہ دیگر مہینوں میں اتنی عبادات نہیں کیا کرتے تھے، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے بڑے سخی تھے، اور ماہ رمضان میں آپ کی سخاوت اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی جب آپ سیدنا جبریل سے ملتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کی ہر رات میں ملتے اور ان کے ساتھ قرآن کریم کا مراجعہ کرتے ؛ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تیز اندھیری سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے) اس حدیث کو امام بخاری: (6) اور مسلم : (2308)نے روایت کیا ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام شافعی -اللہ ان سے راضی ہو- کہتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کی وجہ سے ماہ رمضان میں سخاوت بہت زیادہ پسند ہے، ویسے بھی لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سے لوگ روزوں اور نمازوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے ماہ رمضان میں صاحب حیثیت لوگوں کو دل کھول کر سخاوت کرنی چاہیے۔" ختم شد
"لطائف المعارف" (ص: 169)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (جس وقت آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم شب بیداری فرماتے، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے، خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے تھے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2024) اور مسلم : (1174)نے روایت کیا ہے۔
اسی لیے سلف صالحین رمضان المبارک کے آنے پر ہر چیز چھوڑ کر عبادت میں مگن ہو جاتے تھے اور خصوصی طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔
بعض اہل علم سے یہ بھی ملتا ہے کہ علمی مجالس بھی برخاست کر دیتے تھے اور صرف عبادت و تلاوت میں مگن ہو جاتے تھے۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ "لطائف المعارف" (ص: 171) میں کہتے ہیں:
"امام زہری رحمہ اللہ رمضان کے آنے پر کہتے تھے: ماہ رمضان قرآن اور کھانا کھلانے کا مہینہ ہے۔
ابن عبد الحکیم کہتے ہیں کہ: مالک ؒ رمضان کے آنے پر حدیث پڑھنے پڑھانے اور اہل علم کی مجلس میں بیٹھنے سے گریز کرتے تھے اور تلاوت قرآن کے لیے مصحف اٹھا لیتے تھے۔
عبد الرزاق کہتے ہیں کہ: سفیان ثوریؒ رمضان المبارک کے داخل ہونے پر ہر قسم کی عبادت چھوڑ کر قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے تھے۔" ختم شد
سلف صالحین ماہ رمضان میں خصوصی طور پر عبادت اور تلاوت میں مصروف ہو جاتے تھے، اس کی واضح دلیل ہے کہ سلف صالحین متعدد بار قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے۔
چنانچہ عبد الرحمن بن عبد اللہ رحمہ اللہ؛ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "وہ ماہ رمضان کے ہر 3 دن میں ایک بار قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے، اور غیر رمضان میں ہر ہفتے مکمل کرتے تھے۔" اس اثر کو سعید بن منصور نے اپنی تفسیر : (2/452) میں اور اسی طرح "السنن الكبرى" از بیہقی: (2/555) نے نقل کیا ہے۔
اسی طرح ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ: "اسود رحمہ اللہ رمضان کی ہر دو راتوں میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے، مغرب اور عشا کے درمیاں نیند لیتے تھے، جبکہ دیگر ایام میں 6 دنوں میں مکمل کرتے تھے۔" ختم شد
مصنف عبد الرزاق :(1/565)، تفسیر سعید بن منصور :(2/449)، اور اس کی سند صحیح ہے۔
ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہر دن اور رات میں ایک بار قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے، اور جب رمضان آتا تو عید الفطر کی رات اور دن کو شامل کر کے 62 بار قرآن کریم ختم کرتے تھے۔" ختم شد
"أخبار أبي حنيفة وأصحابه" (ص:55)
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام شافعی رحمہ اللہ ہر رات قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے، لیکن جب ماہ رمضان ہوتا تو ہر رات کو الگ اور ہر دن کو الگ قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے اس طرح آپ ماہ رمضان میں 60 بار تلاوت مکمل کرتے تھے۔" ختم شد
"تاريخ بغداد وذيوله" (2/ 61)
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ جس وقت رمضان کی پہلی رات ہوتی تو اپنے احباب کو جمع کر کے انہیں نماز پڑھاتے ، اور ہر رکعت میں 20 آیات کی تلاوت کرتے اور اس طرح پورے قرآن کریم کی تلاوت مکمل فرماتے تھے، اسی طرح سحری میں 10 سے 15 پارے پڑھتے تھے، اس طرح ہر 3 دن میں سحری کے وقت بھی قرآن کریم مکمل کرتے، اور دن میں روزانہ ایک بار قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرتے تھے۔
"شعب الإيمان" (3/ 524)
اس سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
ماہ رمضان میں افضل یہی ہے کہ انسان عبادت میں مشغول رہے اور خصوصی طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ علمی مجالس میں نہ جائے، اور کتب بینی بھی نہ کرے بلکہ اپنے آپ کو توانا اور عبادت کے لیے تر و تازہ کرنے کے لیے موقع ملے تو مفید کتب اور مجالس سے بھی استفادہ کرے، اور رمضان کی خصوصی عبادات سے بھی مشغول نہ ہو، چنانچہ رمضان میں کثرت سے عبادت، نفل نیکیاں، تلاوت قرآن، نیکی اور سخاوت والے اعمال کریں، ایسے ہی صدقہ کریں، لوگوں کے کام آئیں اور پورے مہینے میں تسلسل کے ساتھ ان مثبت سرگرمیوں کو جاری رکھیں۔
رمضان میں عبادت کو ترجیح اس لیے بھی دی جائے گی کہ رمضان میں نیکیوں کا ثواب تعداد اور کیفیت کے اعتبار سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
چنانچہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چونکہ رمضان المبارک کا مقام و مرتبہ بہت عظیم ہے اس لیے رمضان میں نیکی کا اجر و ثواب بھی بہت اعلی ہے، اسی طرح گناہ کی سنگینی اور جرم بھی دیگر مہینوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ اس بابرکت مہینے کو غنیمت سمجھے، نیک اعمال کرے اور برائیوں سے بچے، امید ہے کہ اللہ تعالی قبولیت سے نوازے اور حق بات پر استقامت عطا فرمائے، تاہم گناہ کو کبھی بھی نہیں بڑھایا جاتا چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان ، لیکن نیکی کو 10 گنا یا اس سے بھی زیادہ بار بڑھا دیا جاتا ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (15/447)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (38213 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم