جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مسلمان لڑکی سے شادی کے لیے قبول اسلام

26758

تاریخ اشاعت : 08-12-2012

مشاہدات : 6295

سوال

میرے علم میں آیا ہے کہ اگرکسی مسلمان لڑکی سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا جاۓ اگرچہ اس کا ایمان حقیقی نہ ہواللہ تعالی اس سے اس کا اسلام قبول کرتا ہے ۔
اس لیے کہ اس طریقہ سے مسلمانوں کی تعداد میں ایک شخص کا اضافہ ہوتا ہے اورخاص کرشادی کے بعد اس کے بچے نصاری ہونے کی بجاۓ مسلمان ہوں گے ، توآپ اس کےمتعلق کیا کہتے ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصلی ایمان تودل میں ہوتا ہے ، اوراسی بنا پرشریعت اسلامیہ میں نیت کا بہت دخل ہے اوراس کا اعتبارکیا جاتا ہے ، اسی چيزکا اشارہ اس حدیث میں ملتا ہے جسے علماء کرام نے دین اسلام کا نصف قرار دیا اوربہت سے مصنفین نے اپنی کتابوں کا آغاز ہی اس حدیث سے کیا ہے ۔

مثلاامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب صحیح بخاری کی ابتدا کرتے ہوۓ اسی حدیث کونقل کیا ہے :

عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

( یقینا اعمال کا دارومدار تونیتوں پر ہے ، اوربلاشبہ ہرشخص کے لیے وہی ہے جواس نے نیت کی ہو ، توجوشخص دنیا کے حصول کے لیے یا پھر کسی عورت سے شادی کے لیے ہجرت کرتا ہے تواس کی ہجرت اسی لیے ہے جس لیے اس نے ہجرت کی ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 1 ) ۔

اورمسلم کی روایت میں ہے کہ :

( توجس نے اللہ تعالی اوراس کے رسول کے لیے ہجرت کی تواس کی ہجرت اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ہے ، اورجس نے دنیا کے حصول یا پھر کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی لیے ہے جس لیے اس نے ہجرت کی ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3530 ) ۔

تواس بنا پراس مسئلہ کی دوشقیں ہیں :

پہلی شق :

اللہ تعالی کے ہاں اسلام قبول ہونے کے متعلق تویہ ہے کہ حدیث کی روح سے اگراس کی نیت صرف شادی کی ہے تواس کااس طرح قبول اسلام اللہ تعالی کےہاں قابل قبول نہيں ، اس لیے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا ۔

دوسری شق :

اس پرظاہری اعتبار سے اسلامی احکام کا لاگو ہونا ۔

تواگرایسا شخص کلمہ پڑھ لے اورظاہری طورپرشعائراسلام پرعمل بھی کرتا رہے اورنواقض اسلام کوئ نہ ہوتواس کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ برتا جاۓ گا ، اوراس کی اس مسلمان لڑکی سے شادی قبول کرنا بھی ممکن ہے ، اس لیے کہ ہمیں تویہ حکم ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہری حالات پرمعاملات کرو ہمیں اس کا حکم نہيں کہ ان کے دلوں کوکریدتے پھریں ۔

جیسا کہ ابوسعیدخدری رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے :

وہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دلوں میں نفب لگاؤں اوران کے پیٹ پھاڑتا پھروں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4004 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1763 ) ۔

اورہوسکتا ہے کہ یہ شخص اگراسی نیت سے اسلام قبول کرے اورپھر اسلام کے فضل وکمال اورصدق نیت کی ترغیب دیکھے تواللہ تعالی کے ساتھ سچائ کرتے ہوۓ اپنے اسلام کی اصلاح کرلے اورنیت میں بھی سچائ پیدا کرے تواللہ تعالی اس سے اسلام قبول فرمالے ۔

اوریہ بھی ممکن ہے کہ جس کسی کا بھی اس شخص سے تعلق ہے وہ اسے نصیحت کرے کہ قبول اسلام میں سب سے پہلے اللہ تعالی کی رضامندی اورحقیقی طورپرقبول اسلام ہونا چاہیے ، اورپھراس لڑکی سے شادی اسی نعمت اسلام کےماتحت ہے نہ کہ مقصد وغایت ۔

اوراس لڑکی کوبھی چاہیے وہ شادی کواس شخص کے اسلام سے ترغیب دلاۓ اورشرط رکھے کہ اگراسلام قبول کرو گے تومیں شادی کروں گی جس طرح ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا نے ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی کرتے وقت لگائ تھی :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی اوران کے درمیان مہر اسلام تھا ، واس طرح کہ ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا ابوطلحہ سےپہلے اسلام لائيں اورابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ان کی طرف شادی کا پیغام بھیجا توام سلیم رضي اللہ تعالی کہنے لگيں :

میں اسلام قبول کرچکی ہوں تم بھی اسلام قبول کرلوتومجھے منظورہے میں شادی کےلیے تیار ہوں ، توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اوران کا مہراسلام ہی تھا ۔ سنن نسائی حدیث نمبر ( 3288 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےصحیح سنن نسائ( 3133 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔

اورسوال میں اللہ تعالی کے ہاں اسلام کے قابل قبول ہونے کی جوتاویل کی گئ ہے کہ اس سے مسلمانوں کی تعداد میں زيادتی ہوگی صحیح نہیں ، اس لیے کہ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد زيادہ ہونا ایک اچھا اورمستحسن امر اورمقصود ہے لیکن یہ اسکےلیے جو حقیقی طورپرایمان نہیں لایا بلکہ صرف اسلام کا دعوی کرتا ہے اس کے قبول کا سبب نہیں بن سکتا ۔

اس لیے کہ اسلام کیفیت اورکمیت دونوں کا اہتمام کرتا ہے نہ کہ صرف کمیت کا ، اوراپنے دین میں ایک سچا سوجھوٹوں سے بہتر ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد