الحمد للہ.
اولڈ ہاؤس ميں رہنے والوں كو شراب اور خنزير پيش كرنے كى حرمت ميں تو كوئى شك وشبہ نہيں ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو شراب ميں دس آدميوں پر لعنت فرمائى ہے جن ميں شراب اٹھا كر لے جانے والا اور پلانے والا بھى شامل ہے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب ميں دس اشخاص پر لعنت فرمائى، شراب كشيد كرنے والے، اور اسے كشيد كروانے والے، اور پينے والے، اور پينے والے، اور اسے اٹھانے والے، اور جس كى جانب اٹھا كر ليجائى جا رہى ہے، اور پلانے والے، اور فروخت كرنے والے، اور اس كى قيمت كھانے والے، اور اس كے خريدار، اور جس كے ليے خريدى گئى ہے اس پر لعنت فرمائى "
ديكھيں: جامع ترمذى حديث نمبر ( 1295 ) اور سنن ابو داود حديث نمبر ( 3674 ).
لھذا نہ تو شراب كى نقل و حمل جائز ہے، اور نہ ہى اس پر اجرت لينى، اور ايك روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلاشبہ جب اللہ تعالى نے كسى قوم پر كوئى چيز حرام كى تو ان پر اس كى قيمت بھى حرام كر دى "
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 2978 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور قرآن مجيد ميں بھى شراب اور خنزير كى حرمت كا علم سب كو ہے.
اور ہمارے پاس دو مانع اور غير شرعى اشياء اور باقى ہيں:
پہلى:
مسلمان عورت كے ليے اس كام ميں شرعى لباس كا كامل نہ ہونا.
دوسرى:
بوڑھے اور عاجز و اپاہچوں كو غسل ديتے اور ان كے پيمپر ( نيپى ) تبديل كرنے كى نتيجہ ميں ان كى شرمگاہوں كو ديكھنا اور انہيں چھونا، يہ ضرورت كے وقت تو جائز ہے، ليكن ميرے خيال ميں ايسا نہيں ہے كہ وہاں اولڈ ہاؤس ميں مرد مردوں كى ديكھ بھال كرتے ہونگے اور اور عورت عورتوں كى ، بلكہ غالب يہى ہے كہ وہ سب ايك ہى جگہ پر جمع ہونگے اور عورت دونوں جنسوں مرد وعورت كے كام كرتى ہو گى.
لھذا ميرى نصيحت تو يہى ہے كہ خاص كر ايك مسلمان عورت كو ايسى جگہ پر ملازمت نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ يہ كام اس كے شايان شان اور ناپسنديدہ ہے، كيونكہ اس ميں نجاست والے كپڑے اور اجتماعى ادارے كا تعاون حاصل كرنا ہے جس ميں ايك مسلمان شخص كا كافروں سے لينے ميں ذلت و رسوائى پائى جاتى ہے، ليكن يہ ہے كہ يہ كام ايسے كام سے زيادہ آسان ہے جس ميں شرعى مخالفات پائى جاتى ہوں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ اسلام اور مسلمانوں كو عزت و تكريم سے نوازے, اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .