سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

روزہ كے ساتھ شہوت انگيزى كنٹرول كرنے كى كيفيت

سوال

ميرا سوال رمضان كے علاوہ روزہ ركھنے كے متعلق ہے، يعنى جب مسلمان شخص شادى كى خواہش ركھے ليكن فى الحال شادى كى استطاعت نہ ہو تو مجھے علم ہے كہ اسے اس حالت ميں روزے ركھنے كى نصيحت كى جاتى ہے، ليكن اس ميں صحيح حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ دين حنيف نفسانى خواہشات كو كنٹرول كرتا ہے، حتى كہ مسلمان انسان اپنى امتيازى شخصيت كے ساتھ حيوان كى طرح اپنى شہوات كا ہى اسير نہ بن جائے، اور اس دين حنيف نے اس كے ليے ايسے واجبات اور مستحبات مشروع كيے جس سے شہوات كے پيچھے چلنے كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے آثار ختم ہو جاتے ہيں.

ان مشروع اصول و ضوابط ميں روزہ كى مشروعيت بھى شامل ہے، كہ اگر كوئى شخص شہوت كو شادى كے ذريعہ پورا نہيں كر سكتا تو وہ طبعى طور پر روزہ ركھ كر اس شہوت كو ختم كر سكتا ہے.

جيسا كہ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہےكہ:

" ہم نوجوانى كى حالت ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں فرمايا:

اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كر لے، كيونكہ يہ آنكھوں كو نيچا كرنے كا باعث ہے، اور شرمگاہ كے ليے بہت زيادہ حفاظت كا باعث ہے، اور جو كوئى استطاعت نہيں ركھتا تو وہ روزہ ركھے كيونكہ يہ اس كے ليے ڈھال ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5066 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).

اس سے مراد يہ ہے كہ روزہ نوجوان كى شہوت انگيزى ميں كمى واقع كرتا ہے.

اگرچہ يہ حكم عموما نوجوانوں كے ليے مشروع ہے، ليكن فتنے زيادہ ہونے، اور برائى كے اسباب ميں آسانى اور فحاشى كى دعوت دينے والى اشياء كى كثرت كى بنا پر روزہ ركھنے كے حكم ضرورت اور بھى زيادہ ہو جاتى ہے، اور خاص كر ايسے شخص كے ليے تو اور بھى زيادہ ہے جو بے پرد اور فحش معاشرے ميں رہائش پذير ہو.

اس ليے اسے اپنى عفت و عصمت اور دين بچانے كے ليے اس عبادت پر توجہ ديتے ہوئے روزہ ركھنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى اپنے دين اور عزت كى حفاظت اور شادى ميں آسانى كى دعا بھى كرنى چاہيے، تا كہ اپنى شرمگاہ كى حفاظت كر سكے، اور اسى طرح اس ميں معاونت كے ليے اسے يہ ياد كرتے رہنا چاہيے كہ جو شخص اپنى حفاظت كرتا، اور اللہ تعالى كے احكام پرچلتا ہے اللہ تعالى نے اس كے ليے جنت ميں موٹى موٹى آنكھوں والى حوريں تيار كر ركھى ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد