الحمد للہ.
لغت ميں عدل مستقيم كو كہتے ہيں، اور اس كى ضد اور مخالف المعوج يعنى ٹيڑھا ہے.
اور شرعى اصطلاح ميں عادل يا عدل وہ شخص ہے جو واجبات پر عمل كرتا ہو، اور گناہ كبيرہ كا مرتكب نہ ہو، اور نہ ہى صغيرہ گناہوں پر اصرار كرتا ہو.
واجبات پر عمل كرنے سے مراد يہ ہے كہ فرائض كى ادائيگى كرتا ہو، مثلا نماز پنجگانہ كى ادائيگى كرنا.
اور كبيرہ گناہ كا مرتكب نہ ہو مثلا چغلى اور غيبت وغيرہ.
اور عدل كے ساتھ يہ بھى شرط ہے كہ وہ قوى البصر يعنى اس كى نظر تيز ہو تو اس كے دعوى كى سچائى كا احتمال ہے، ليكن اگر اس كى نظر كمزور ہو تو اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى چاہے وہ عادل ہى كيوں نہ ہو؛ اس ليے كہ اس كى نظر كمزور ہے جس كى بنا پر اسے وہم ہو سكتا ہے.
اس كى دليل يہ ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے قوت اور امانت كو كام سپرد كرنے كا باعث اور سبب بنايا ہے، مدين والے شخص كے ساتھ موسى عليہ السلام كے قصہ ميں ہے كہ اس كى ايك بيٹى نے يہ بات كہى تھى:
اے ابا جان اسے ملازم ركھ ليں، كيونكہ جسے آپ ملازم ركھيں ان ميں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور طاقتور اور امانت دار ہو القصص ( 26 ).
اور جنوں ميں سے اس عفريت نے جس نے ملكہ سبا كا تخت لانے كا ذمہ ليا تھا اس نے يہ كہا:
اور يقينا ميں اس پر قوى اور طاقتور اور امانتدار ہوں.
تو يہ دو وصف ہر كام كے ركن ہيں، اور اس ميں گواہى بھى شامل ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 323 ).
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ الموسوعۃ الفقھيۃ طبع كويت ( 30 / 5 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .