الحمد للہ.
اول :
پہلی بات تویہ ہے کہ " الخلاف " کے نام سے کوئی غیرمعروف سی کتاب ہے اورہوسکتا ہے کہ یہ کتاب رافضی شیعہ کی لکھی ہوئی ہو ، کیونکہ اس نام سے ان کی ایک کتاب ہے جس میں ان کے خیال کے مطابق مذاھب اسلامیہ کےاختلافی مسائل ذکر کیے گۓ ہیں ۔
اوررافضی شیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جھوٹ باندھتے وقت کوئی ڈرتے وغیرہ نہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے انہیں سب سے زيادہ جھوٹے اورسب سے زيادہ عھد شکن کے وصف سے نوازا ہے ۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 28 / 484 ) ۔
اورمنھاج السنہ میں شیخ الاسلام ان کے بارہ میں کچھ اس طرح کہتے ہیں :
روایات نقل کرنےمیں سب سے جھوٹی قوم ہیں اورعقلیات میں بھی سب سے جاہل ترین قوم ہے منقول میں سے اس کی بھی تصدیق کرتے ہیں جس کے بارہ میں علماء کرام یقینی علم رکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ باطل ہے ، لیکن نسل درنسل کی جانے والی متواتر اورمعلوم روایات کی تکذیب کرتے ہیں ، نہ تووہ رواۃ الحدیث اور اخباروعلم نقل کرنے والوں کے درمیان تمیزکرسکتے ہیں کہ کذب بیانی یا غلط اورجہالت تونہيں ۔
اورنہ ہی وہ یہ جانتے ہیں حافظ وضابط اورعادل آثار کے ساتھ علم میں کون معروف ہے ۔ ا ھـ دیکھیں منھاج السنۃ ( 1 / 8 )
اورایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح رقمطراز ہيں :
اھل قبلہ میں آپ رافضی شیعہ سے زیادہ جاہل گروہ نہیں پائيں گے ۔۔ وہ بلا شک سب سے زيادہ جھوٹے ہیں ۔۔۔ اورگروہوں میں سب سے زیادہ نفاق رکھنے والے ہيں ۔۔۔ ا ھـ دیکھیں منھاج السنۃ ( 2 / 87 ) ۔
دوم : اس حدیث کے بارہ میں بلاشک ہرایک عقل مند یہی کہے گا کہ یہ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دین میں زنا کی حرمت معلوم ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم مباح کردیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توزنا کے مقدمات واسباب اوروسائل بھی حرام قرار دیے ہیں مثلا اجنبی عورت کے ساتھ مرد کی خلوت اوراس سے مصافحہ کرنا ، اورمرد وعورت کے درمیان فریفتگی اوراختلاط ، اورعورت کا بات چیت میں نرم رویہ اختیار کرنا ۔۔۔ الخ ۔
اوراسی لیے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اورزنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ وہ فحش کام اوربہت برا راستہ ہے الاسراء ( 32 ) ۔
توآپ ذرا غور کریں کہ اللہ تعالی نے کس طرح زنا کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے جوکہ مجرد فعل سے بھی زيادہ بلیغ ہے اس لیے کہ اس میں ( یعنی قریب جانے سے روکنے میں ) زنا کے سب مقدمات و اسباب ودواعی شامل ہوجاتے ہیں ۔ دیکھیں تفسیر السعدی ص ( 742 ) ۔
آپ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس فرمان پر غوروفکر کریں :
{ اوروہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں } الفرقان ( 68 - 69 ) ۔
اس فحش اورمبغوض کام کوشرک اور قتل نفس کے ساتھ ملایا اورذکر کیا گيا ہے ، اس لیے کہ اس میں فضیلت کوقتل اورذلت وغلط کام کاانتشارپایا جاتا ہے اوراسی طرح اس میں ہتک عزت و شرف ، اورنسب کا ضياع اوردوسرے مفاسد وامراض بھی پاۓ جاتے ہیں جس سے معاشرے اورقومیں تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب زانی زنا کرتا ہے تووہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 57 ) ۔
سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لمبی حدیث میں عذاب قبر کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہم آگے چلے اورایک تنور جیسی چیز کے پاس پہنچے جس کا اوپر والا حصہ تنگ اورنچلا حصہ کھلااوروسیع تھا ، اوراس میں شور وغوغا اورمختلف قسم کی آوازيں تھیں ہم نےاس میں جھانکا تودیکھا کہ اس میں مرد وعورتیں لباس کے بغیر تھے اوران کے نيچے سے آگ کا شعلہ آتا جب وہ شعلہ آتا تووہ شور وغوغا کرنے لگتے ، یعنی ان کی آوازيں بلند ہوجاتیں
اوراس شعلے کی بنا پروہ اوپر کی جانب اٹھ جاتے قریب تھا کہ وہ اس سے باہرہی نکل جائيں ، اورجب وہ شعلہ مانند پڑجاتا تووہ پھرنیچے چلے جاتے ، میں نے ان دونوں فرشتوں سے سوال کیا یہ لوگ کون ہیں ؟ ۔۔۔۔
وہ دونوں کہنے لگے : وہ بے لباس مرد وعورتیں جو کہ تنور جيسی عمارت میں تھیں وہ زانی مرد و وعورتیں تھیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 7047 ) ۔
ابوامامہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا :
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کی اجازت دے دیں ، تولوگ اس کی طرف متوجہ ہوکر اسے ڈانٹنے لگے اوراسے کہا کہ اسے چھوڑ دو یہ بات نہ کرو ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا میرے قریب آجاؤ تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا ۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ بیٹھ گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی والدہ کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم یہ کام اپنی بہن کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی خالہ کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی خالاؤں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ھاتھ اس نوجوان پر رکھا اورفرمایا : اے اللہ اس کے گناہ معاف کردے اوراس کے دل کوپاک صاف کردے ، اوراس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما ، تو اس کے بعد اس نوجوان نےچيز کی جانب پلٹ کربھی نہیں دیکھا ۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی نے الاحیاء کی احادیث تخریج کرتے ہوۓ اس حدیث کے بارہ میں کہا ہے کہ اسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے اوراس کے رجال صحیح کے رجال میں سے ہیں ۔ ا ھـ
اس جرم کی قباحت وشناعت اوراس فعل کا ارتکاب کرنے والے کے لیےدنیا وآخرت میں ٹھکانہ وذلت کے بیان میں بہت ساری احادیث وآیات ہیں ، تواس سب کچھ کے بعد یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایسا قبیح قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاۓ ؟
اورپھر یہ بھی ہے کہ یہ کیسا جھوٹا گناہ والا قول ہے کہ : وہ شخص کام کاج کی جگہ پر ایک عورت کوپسند کرنے لگا !! ۔
توکیا صحابہ کرام میں جو کہ خیرالقرون کے دور میں رہتے تھے کیا ان کے دور میں کوئی ایسی جگہ تھی کہ وہاں مرد وعوت اکٹھے اورایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہوکر کام کاج کرتے ہوں ؟ !
لھذا سوال کرنے والے اورباقی سب مسلمانوں پر بھی ضروری ہے کہ وہ اس طرح کی فحش اور بری غلطیوں سے بچ کررہیں اوراس کی جانب متوجہ بھی نہ ہوں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس جھوٹ کوگھڑنے والا اس لائق ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذيل قول میں شامل ہواوروہ اس پر یہ حدیث بالکل صحیح فٹ ہوتی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی جانتے بوجھتے مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنارہا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 111 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3 ) ۔
واللہ اعلم .