اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک عیسائی کیساتھ سنجیدہ بات چیت

سوال

میں آپ کی ویپ سائٹ کے صفحات دیکھ رہی تھی جس میں مجھے بہت فائدہ ہوا اس لیے کہ میں ایک دینی مدرسے کی عیسائ طالبہ ہوں اورمزيد تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں ، میں مندرجہ ذیل اشياء میں آپ کی راۓ جاننا چاہتی ہوں کہ آیا یہ اشیاہ صحیح ہيں ؟
اسلام میں جنت شراب اورعورت اورغناء موسیقی کا نام ہے اورجنت میں جانے کے لیے جوراستہ ہے وہ ان سب اشیاء سے دوررہنے کا ہے جوکہ اسے ان سے بچنے کی بنا پرجنت میں ملیں گی اوراس کے ساتھ ساتھ ارکان اسلام کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے ۔
اسلام میں اس بات کی ضمانت نہیں کہ نجات اورخلاصی ہو جاۓ گی ، بلکہ صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی میں اس راستہ کی پیروی کرو اوراس پرچلو تو تمہيں اللہ تعالی کی طرف سے کامیابی اورنجات و خلاصی حاصل ہوگی اوراس کی کوئ ضمانت نہیں ، اورمیں بغیر ضمانت کے جیناپسند نہیں کرتی ۔
مجھے علم ہے کہ مسلمان غلطی کا اصلا اعتقاد نہیں رکھتے لیکن بغض نظر اس کے کہ انسان غلطی پرپیدا ہوا ہے کہ نہیں ، کیا آپ میری اس میں موافقت نہیں کرتے کہ انسان سے غلطی ہوتا ہے اوروہ بہت ہی زيادہ غلطی کرنے والا ہے ؟
انسان اپنی غلطی اورخطاء کے بارہ میں کیا کرے ؟ مجھے توبہ کے متعلق سمجھ توہے لیکن ظاہریہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کےہاں کسی کے لیے بھی نجات تک پہنچنا ممکن نہیں اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بیٹے کوبھیجا کہ وہ ہمارے لیے صلیب پرقتل کردیا جاۓ اورہمیں ہمارے اگلے پچھلے سب گناہوں سے نجات مل جاۓ اورکفارہ بنے ۔
اسلام میں نجات کی کوئ ضمانت نہيں یہ ایسا معاملہ ہے جوحقیقی طورپر بڑا خوفناک ہے کہ آپ نجات کے لیے بغیر ضمانت زندگی گزاریں اور آپ انپی زندگی گزار دیں اوریہ بھی علم نہ ہوکہ آپ نے اتنے اعمال کرلیے ہیں جوآپ کوقیامت کے دن کامیاب کردیں اورنجات دلا دیں گے ، اوریہ بھی آپ نہيں جانتے کہ آپ نے اتنی نمازيں پڑھ لیں ہيں کہ نہیں جوآپ کوکافی ہوں ۔۔۔ حقیقتا یہ معاملہ بہت ہی مرعب ہے ۔
میں نے اپنے کئ ایک مسلمان دوستوں سے یہ سوال کیا ہے کہ کیا وہ موت کے بعد یقینا جنت میں جائيں گے یا کہ آگ میں ؟ لیکن ابھی تک ان میں کسی نے بھی جواب نہیں دیا ، اسلام میں کوئ بھی کسی قسم کی نجات کی ضمانت نہیں اس لیے کہ یہ اعتقاد ہی نہيں کہ مسیح علیہ اسلام پرایمان ہواوروہ نجات دلائيں بلکہ اسلام توہرایک شخص کے فعل اوراس کے اعمال پراعتماد کرتا ہے ۔
یہ بھی ہے کہ : اگرمیں مسلمان ہونا چاہوں تومیں اس کی طاقت نہیں رکھتی جب مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ لوگوں میں سے چنے ہوۓ ہیں توپھر وہ اپنے دین کوپھیلاتے کیوں نہیں ؟ کیا یہ ہی کافی ہے کہ آپ اس پرہی خوش ہوتے رہیں کہ آپ مسلمان پیدا ہوۓ ہیں ؟
اوراگرکوئ انسان عیسا‏ئ ہونا چاہے تووہ اس کی طاقت رکھتا ہے اورکسی بھی شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ چند سیکنڈوں میں عیسا‏ئت قبول کرکے عیسائ بن جاۓ ، میں جب پیدا ہو‏ئ تھی توعیسائ نہیں تھی ، اورعیسائ یہ کہتے اوریقین رکھتے ہیں کہ مسیح عیسی علیہ السلام ہی رب کی طرف واحد راستہ ہیں ۔
عیسی علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے کہ : میں ہی راستہ ہوں میں ہی حق ہوں ، میں ہی زندگی ہوں کوئ بھی میرے بغیر والد تک نہیں پہنچ سکتا اس نے یہ نہیں کہا کہ میں بھی ایک راستہ ہوں بلکہ یہ فرمایا کہ میں ہی راستہ ہوں ۔
اوریہ بھی فرمایا کہ میں اورباپ ایک ہی ہیں ۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کوئ شخص ان حقائق سے جان بوجھ کرکس طرح اندھا ہورہے الا یہ کہ اس نے اس سے قبل یہ کچھ سنا نہ ہوتواوربات ہے ، میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے اس کا جواب دیں اوراس پراپنی طرف سے کوئ تعلیق چڑھائيں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم سائلہ کے یہ سوال کرنے پراس کی قدر کرتے ہیں کہ اس نے دین اسلام کے بارہ میں جوتصورات پیش آۓ تھے وہ ہمارے سامنے پیش کیے ہیں تا کہ اس سے کوئ فائدہ حاصل کرسکے ، ہم امید کرتے ہیں کہ جوکچھ لکھا گیا ہے اس کا مناقشہ اورجوتصورات آپ نے ہمارے سامنے پیش کيۓ ہیں ان کی تصحیح کی جاۓ تا کہ حقیقت حال تک پہنچا جاۓ‌اور اس کا علم ہو اوراس پراطمنان بھی حاصل ہو :

1 - جنت کے بارہ میں جو اسلامی عقیدہ کے موضوع میں کہا گیا ہے کہ جنت ایک ایسی نعمت ہے جوشراب اورعورتیں اورموسیقی و گانے وغیرہ کا نام ہے ، یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس میں صحیح عقیدہ کے مطابق بہت ہی زيادہ نقص پایا جاتا ہے ۔

اس لیے کہ جنت کی نعمت کوئ صرف حسی اورجسدی ہی نہیں بلکہ یہ ایسی نعمت ہے جوقلبی اوراطمنان اوراللہ سبحانہ وتعالی کی رضا و خوشنودی اوراس کے قرب و جوار سے بھی تعلق رکھتی ہے ، بلکہ جنت میں مطلق طورپر سب سے عظیم نعمت اللہ سبحانہ وتعالی کا دیدار ہے

اس لیے کہ جنتی لوگ جب اللہ تعالی کے چہرہ کا دیدار کريں گے توہرقسم کی نعمت کوبھول جائيں گے ، حالانکہ جنت میں وہ نعمتیں ہیں جونفسوں کی لذت اورآنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اوراس جنت میں نہ توکوئ لغو بات سنيں گے اورنہ ہی کوئ گناہ ہوگا بلکہ سلام سلام ہی پکارا جاۓ گا ، اورکسی بھی جان کویہ علم نہیں کہ ان کے اعمال کے بدلے میں اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چھپا کررکھا گیا ہے ، تویہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں صرف وہ ہی نہيں جوآ پ نے ذکر کیں ہیں بلکہ وہ تواس سے بھی کئ حصہ زیادہ ہیں ۔

2 - آپ نے جویہ ذکر کیا ہے کہ جنت میں اس وقت جایا جا سکتا ہے جب کچھ معین حرام کردہ اشياء کوترک کردیا جاۓ تا کہ انسان اس سے آخرت میں کامیابی حاصل کرسکے ، تواس اطلاق کے لحاظ سے یہ بھی ایک بہت بڑی غلطی ہے ۔

جبکہ اسلام ایسا دین ہے جوکہ عمل کا بھی حکم دیتا ہے نہ کہ صرف کسی چیز کے ترک کرنے کا ، تو اس لیے نجات اورکامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک مامورات پر عمل نہ کیا جاۓ اورکامیابی کا انحصار صرف منع کردہ اشياء کوترک کرنے پر ہی نہیں ہے ، توواجبات پرعمل اور حرام اورمنع کردہ سے رکنا دونوں کو شامل ہوگا ۔

اوراسی طرح ہروہ چيز جودنیا میں حرام ہے اس کے بدلہ میں جنت میں صرف وہ ہی نعمت نہيں بلکہ جنت میں کتنی ہی اورایسی نعمتیں ہیں جودنیا میں بھی مباح اورحلال تھیں اوروہ جنت بھی پائ جائيں گی :

مثلا دنیامیں شادی کرنا حلال و مباح ہے اورجنت میں بھی یہ نعمت پائ جاۓ گی اوربہت سے اچھے اورپاکیزہ پھل اس دنیا میں مباح و حلال ہیں مثلا انار ، اورانجیر وغیرہ اوریہ چيزیں جنت کی نعمتوں میں بھی شامل ہیں اوراسی طرح دودھ اورشہد دنیا میں حلال اورمباح ہے توجنت میں بھی یہ نعمتیں پائ جائيں گی ۔

بلکہ معاملہ یہ ہے کہ دنیا میں حرام کردہ اشياہ میں جوفساد پایا جاتا ہے وہ آخرت میں دور کردیا جاۓ گا اوروہ جنت کی نعمتیں اس فساد سے پا ک ہوں گی مثلا شراب توجنت کی شراب دنیا کی شراب کی طرح نہیں ہوگی بلکہ اس کے بارہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

نہ تو اس میں سردرد ہواورنہ ہی اس کے پینے سے بہکيں گے ۔

توجنت میں یہ شراب پینے سے نہ توعقل میں فتورآۓ گا اورنہ ہی سر ہی چکرانے لگے گا اورنہ ہی بہکی بہکی باتیں کرے گا تواس طرح جنت میں شراب اس دنیا کی شراب میں فرق ہوگا ۔

تومقصد یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں صرف دنیاوی محرمات کو جنت میں مباح کرنے پر ہی مقتصر نہیں اور اسی طرح ایک اورچيز پر تنبیہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ دنیا میں کچھ ایسی حرام کردہ اشیاء بھی ہیں جنہیں دنیا میں ترک کرنے کی وجہ سے آخرت میں ان کے بدلہ میں کوئ اورچیز نہیں دی جاۓ گی چاہے وہ کھانے والی اشیاء ہوں یا پھر پینے والی یا افعال ہوں اوریا پھر اقوال ۔

مثلا زہر جنت میں کوئ نعمت نہيں ہوگی حالانکہ دنیا میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے ، اوراسی طرح لواطت اورحرام نکاح وغیرہ بھی آخرت میں کوئ نعمت نہیں ہوں گے حالانکہ دنیا میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے ، الحمدللہ یہ چیز بہت ہی واضح ہے ۔

3 - اوررہا مسئلہ ضمانت کا کہ اسلام میں کوئ ضمانت نہیں اورآپ نے جوتغبیر کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس جنت میں داخل ہونے کی ضمانت نہيں تواس کی زندگی ردی اوربڑی خراب رہے گی تواس کا جواب یہ ہے کہ :

اس نتیجہ تک لانے والی چيز غلط قسم کا برا تصور ہے ، اوراگر آپ یہ کہتیں کہ اگر ہر شخص کے پاس جنت میں جانے کی ضمانت ہوتی تویہ اس سے بڑی مصیبت تھی ، اس لیے کہ اس ضمانت کی بنیاد پر ہر شخص حرام کاری کرتا اورہر محظور اورمنع کردہ کام کا ارتکاب کرتا ۔

دیکھیں بہت سے یھودیوں اورعیسائیوں میں مجرم قسم کے لوگ اسی باطل ضمانت اورمعافی کے سرٹیفکیٹ اورپادریوں سے معافی و درگزر کی بنا پرجرم کا ارتکاب کرتے ہیں ، اورہمارے رب نے ان لوگوں کے بارہ میں ہمیں اپنے اس فرمان میں بتایا ہے کہ :

وہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں صرف یھودی اورعیسائ ہی داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئ اورنہیں جاۓ گا ، یہ توصرف ان کی آرزوئيں ہيں ، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئ دلیل پیش کرو البقرۃ ( 111 ) ۔

اورہم مسلمانوں کے ہاں جنت کوئ ایسی چيزیا معاملہ نہيں کہ جو ہماری یا کسی اورکی خواہشات پر مبنی ہو جس طرح کہ ہمارے رب تعالی نےبھی اپنے اس فرمان میں کہا ہے :

حقیقت حال نہ توتمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے ، جوبھی برا کرے گا اسکی سزا پاۓ گا اورکسی کوبھی نہيں پاۓ گا جواللہ تعالی کے پاس اسکی مدد و حمایت کرسکے النساء ( 123 ) ۔

اب ہم آپ کے لیے ذیل میں اس ہونے والی ضمانت کے بارہ میں اسلامی اعتقاد کا مختصر سا نوٹ پیش کرتے ہیں :

اسلام ہراس شخص کے لیے یقینی اورقطعی ضمانت مہیا کرتا ہے جوموت تک اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا ہے :

جوایمان لائیں اوراعمال صالحہ کريں ہم انہیں ان جنتوں میں داخل کريں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں جہاں یہ ابدی طور پرہمیشہ کے لیے رہیں گے ، یہ اللہ تعالی کا وعدہ جو سراسر سچا ہے اورکون ہے جو اپنی بات میں اللہ تعالی سے زيادہ سچا ہو ؟ النساء ( 122 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جوایمان لائيں اوراعمال صالحہ کریں ان کے لیے وسیع مغفرت اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے المائدۃ ( 9 ) ۔

اورایک جگہ پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

ہمیشگی والی جنتوں میں جن کا غائبانہ وعدہ اللہ مہربان نے اپنے بندوں سے کیا ہے ، بیشک اس کا وعدہ پورا ہونے والا ہی ہے مریم ( 61 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ الفرقان میں اس طرح فرمایا :

آپ کہہ دیجۓ کہ کیا یہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت جس کا وعدہ پرہيزگاروں سے کیا گيا ہے جو ان کا بدلہ ہے اوران کے لوٹنے کی اصل جگہ ہے الفرقان ( 15 ) ۔

اوررب عرش عظیم کا یہ بھی فرمان ہے :

ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بناۓ بالا خانے ہيں اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں رب کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا الزمر ( 20 ) ۔

اوراسی طرح اسلام اس کافر کو قطعی اوریقینی ضمانت فراہم کرتا ہے جواللہ تعالی کے احکام سے پہلوتہی کرتا اوردین اسلام سے اعراض کرتا ہے وہ یقینا جہنم میں جاۓ گا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ میں کچھ یوں فرمایا :

اللہ تعالی ان منافق مردوں ، اورعورتوں اورکافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کرچکا ہے جہاں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ تعالی کی پھٹکار ہے ، اوران ہی کے لیے دائمی عذاب ہے التوبۃ ( 68 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نے فرمایا :

اورجولوگ کافر ہيں انکے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ تو اس میں ان کی قضا ہی آۓ گی کہ وہ مرجائيں اورنہ ہی دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکاو کم کیا جاۓ گا ہم ہرکافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں فاطر ( 36 ) ۔

اوراللہ تعالی نے یوم الدین یعنی قیامت کے روز کا انکار کرنے والوں کے بارہ میں فرمایا :

یہی وہ دوزخ ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ، اپنے کفر کا بدلہ پانے کےلیے آج اس میں داخل ہوجاؤ یس ( 63 - 64 ) ۔

تواللہ تعالی نے جووعدہ ان دونوں فریقوں یعنی مسلمان مومنوں اورکافروں سے کیا ہے وہ اس میں کوئ تبدیلی نہیں کرے گا اورنہ ہی اس میں کوئ اختلاف اوروعدہ خلافی ہوگي جس طرح کہ اللہ تعالی نے روز قیامت کے ختم ہونے کے بعد ان کے حالات کا ذکر کیا ہے :

اوراہل جنت اہل دوزخ کوپکاریں گے کہ ہم سے جوہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا ہم نے تو اسکو واقعہ کے مطابق اورسچا پایا ہے ، توتم سے جووعدہ تمہارے رب نے کیا تھا تم نے بھی اس وعدہ کوواقعہ کےمطابق سچا پایا ہے ؟ وہ کہيں گے ہاں ، پھرایک منادی کرنے والا دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ ان ظالموں پراللہ تعالی کی مار اورلعنت ہو الاعراف ( 44 ) ۔

توہر وہ شخص جواللہ تعالی پرایمان لایا اوراعمال صالحہ کیے اوراسی پراس کی موت آئ تووہ یقینا اورقطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا ، اورہر وہ شخص جس نے کفرکیا اوربرے اعمال کیے اوراسی حالت میں اس کی موت واقع ہو‎ئ تووہ قطعی اوریقینی طورپر جنہم میں داخل ہوگا ۔

اورپھر اسلام کے قواعد میں سے ہے کہ مومن آدمی کوخوف اورامید کے مابین زندگی گزارنی چاہیے تووہ اپنے آپ کے جنتی ہونے کا فیصلہ نہیں کرتا اس لیے کہ وہ اس بنا پرغرورمیں آ جاۓ گا اورپھر اسے یہ بھی علم نہیں کہ اس کی موت کس طرح اورکس پر آۓ گی ؟

اورنہ ہی وہ اپنے آپ پرجہنم میں جانے کا حکم لگاۓ گا اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدی ہے اورناامیدی حرام ہے ، تومومن آدمی اعمال صالحہ کرتے ہوۓ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالی ان پراسے اجرو ثواب سے نوازے گا ، اوروہ اللہ تعالی کے عذاب اورسزا کے ڈر سےغلط اوربرے کاموں و گناہوں سےبچتا ہے ۔

اوراگروہ گناہ بھی کرے تواس سے توبہ کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی مغفرت و بخشش حاصل کرسکے اوروہ اپنی اس توبہ سے ہی آگ کے عذاب سے بچتا ہے ، اوراللہ تعالی بھی توبہ کرنے والے کے گناہ معاف کرتا اوراس کی توبہ قبول کرتا ہے ۔

اورآپ کے کہنے کے مطابق جب مومن اس سے ڈرتا ہے کہ اس نے جواعمال صالحہ کیے ہیں وہ کافی نہیں تووہ اللہ تعالی کا خوف اوراس سے امید کرتے ہوۓ اپنے اعمال کوزیادہ کرتا ہے ، اورمومن جتنے بھی اعمال صالحہ زيادہ کرلے وہ ان پربھروسہ نہیں کرتا اورنہ ہی وہ غرور کرتا ہے اس لیے کہ یہ کام کرنا اسے ہلاک کردے گا بلکہ وہ تواعمال صالحہ کرتا ہے اوراجرو ثواب کی امید رکھتا ہے ۔

اوررہ اسی وقت اپنے ان اعمال کرنے میں ریاء کاری تعجب اوراس کے تباہ ہونے سے بھی ڈرتا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کہا ہے :

اورجولوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اوران کے دل کپکپا رہے ہوتے ہيں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہيں المومنون ( 60 ) ۔

تواس طرح مومن آدمی اعمال بھی کرتا ہے اوراجروثواب کی امید بھی رکھتا ہے اورمخالفت بھی کرتا ہے حتی کہ وہ توحید اوراعمال صالحہ پرہی اللہ تعالی سے جاملتا ہے تووہ کامیاب وکامران ہوتا ہے اوراپنے رب کی رضا اورجنت کا مالک بنتا ہے ، اوراگر آپ اس معاملہ میں غورکریں توآپ کوعلم ہوگا کہ اعمال کے لیے یہی وہ صحیح دوافع اوراسباب ہیں ، اورزندگی میں استقامت بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے ۔

4 - اورجوآپ نے غلطی اورخطا کے بارہ میں میں کہا ہے اس پرکلام کئ وجوہات سے کی جاۓ گی :

پہلی :

عقیدہ اسلامیہ کا انسانی گناہ کے بارہ میں موقف یہ ہے کہ : جس طرح کوئ شخص صرف اپنے ہی عمل کا بوجھ برداشت کرتا ہے اسے کوئ اورنہیں برداشت کرتا تواسی طرح وہ کسی اورکے عمل کا بھی بوجھ برداشت نہيں کرتا اوراسے نہیں اٹھاتا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورکوئ بھی کسی دوسرے کا بوجھ اورگناہ نہيں اٹھاۓ‌گا ۔

تواس طرح اصل کی غلطی والی سوچ صحیح نہيں بلکہ یہ ختم ہوجاتی ہے ، اس لیے کہ اگرباپ غلطی کرتا ہے تواولاد اورپوتوں کا کیا قصور ہے کہ وہ اس عمل کے بوجھ اورگناہ اٹھاتے پھریں جوان کے علاوہ کسی اورنے کیا ہو ؟

نصرانی عقیدہ جوکہ ان کے باپ کی غلطی کواولاد پرڈالتا ہے یہ بعینہ ظلم ہے ، توکیا کوئ عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ کئ ایک زمانہ اوردور گزرنے کے باوجود اس گناہ کا تسلسل موجود ہے اوریہ کہ دادے پڑدادے کا گناہ پوتوں اوربعد میں آنے والی نسلوں پربھی ہوتا ہے ؟ ؟

دوسری :

یہ کہ غلطی کرنا یہ بشری طبیعت ہے اورطبعی چيز ہے اورپھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرمایا ہے کہ : ( سب بنوآدم خطا کار ہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2423 ) ۔

لیکن اللہ تعالی نے انسان کوگناہ اورغلطی ہوجانے کی صورت میں عاجز نہيں بنایا کہ وہ اس کے بارہ میں کچھ بھی مالک نہیں بلکہ اللہ تعالی نے اسے فرصت اورموقع فراہم کیا ہے کہ وہ توبہ کرلے اوراس کے لیے توبہ اورواپس پلٹنے کا دروازہ کھلارکھا ہے ۔

اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاوپروالی حدیث میں فرمایا ہے کہ :

( اورسب سے بہتر خطا کار وہ ہے جوتوبہ کرتا ہے ) ۔

اورشریعت اسلامیہ میں اللہ عزوجل کی رحمت واضح نظر آتی ہے کہ جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوپکارتے ہوۓ فرمایا :

میری جانب سے ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر ظلم و زیادتی کی ہے تو اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہوجا‎ؤ یقینا اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی بخشش اوررحمت والا ہے الزمر ( 53 ) ۔

یہ انسان کی طبیعت اوربشری تقاضا ہے اورجب وہ گناہ کرلے تواس کی مشکل کی حل کا راستہ یہ ہے ، لیکن اس بشری طبیعت جوکہ خطاء اورغلطی کی طبیعت ہے کورب اور بندے کے درمیان ایک روک اورممنوع بنا لیا جاۓ اوریہ کہ بندہ اپنے رب کی رضا اس وقت تک حاصل کرہی نہیں سکتا جب تک کہ ( ان کے گمان کے مطابق ) وہ اپنے بیٹے کونازل نہ کردے تا کہ وہ ذلیل و رسوا ہوکر( اپنے باپ ! ! ) کی آنکھوں اورنظر کے سامنے سولی پرلٹکے توپھر اس وقت بشریت کے گناہوں کوبخش دیا جاۓ ۔

تویہ معاملہ بہت ہی تعجب خیز اورگرا ہوا اورصرف اس باطل کلام کوبیان کرنے سے ہی اس کا رد ہو جاتا ہے اس پر رد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ، میں نے ایک مرتبہ اس مسئلہ پربحث کے دوران ایک نصرانی سے کہا کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے بیٹے کواس وقت موجود انسانوں یا پھر بعد میں آنے والوں پرفداہونے اورسولی پرچڑھنے کے لیے نازل فرمایا ہے توپھرآپ یہ بتائيں کہ وہ لوگ جو کہ ولادت مسیح علیہ السلام سے قبل گناہ گار ہی مرگۓ اورانہیں اس عقیدے کا علم نہ ہوسکا کہ وہ اس کے صلیب پرچڑھنے والے عقیدہ پرایمان رکھیں تا کہ وہ ان کے گناہ معاف کردے توان لوگوں کا کیا ہوگا ؟

تواس نے صرف اتنی سی بات کہی یقینا اس کا رد ہمارے پادریوں کے پاس ہوگا ! اوراگر اس کا رد پایا بھی گيا تووہ باطل کلام کومزین کرکے پیش کی جاۓ گی تووہ کیا کہيں گے ؟

اورآپ بھی جب بشری خطا کے بارہ میں نصرانی عقیدہ عقل وانصاف کے سامنے پیش کریں گے توآپ یہی دیکھیں گے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رب نے اپنے اکیلے اورچہیتے بیٹے کی قربانی دی ہے تا کہ اس کے ساتھ سب لوگوں کے گناہ بخش دے ، اوریہ بیٹا الہ ومعبود ہے ۔

اوراگریہ الہ تھا اسے مارا بھی گيا اوراسے گالي بھی نکالی گئ اورپھر اسے سولی پربھی لٹکایا گیا تووہ مرگیا ، تو یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اپنے اندر الحاد چھپاۓ ہوۓ ہے اوراس میں اللہ سبحانہ وتعالی پر کمزوری اورمدد ترک کرنے کا بہتان ہے ۔

اورکیا رب ذوالجلال اپنے سب بندوں کے ایک ہی کلمہ کے ساتھ گناہ معاف کرنے سے عاجز ہے ؟ اوراگر ایسا ہی ہے حالانکہ اللہ تعالی ہر چيز پرقادر ہے ( اورعیسائ بھی اس پرکوئ اعتراض نہيں کرتے ) تو وہ کونسی چيز ہے جو اس بنا پر اس کے بیٹے کوقربانی کا بکرا بنا رہی ہے ؟ ( اللہ تعالی ان ظالموں کے باتوں سے بلند وبالا ہیں ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

وہ آسمانوں اورزمین کا موجد ہے ، اللہ تعالی کی اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئ بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالی نے ہر چيز کوپیدا فرمایا ہے اوروہ ہر چيز کو خوب جانتا ہے الانعام ( 101 ) ۔

اوراگر ایک عام شخص اس بات پر راضي نہيں ہوتا کہ وہ اپنے بیٹے کوکوئ تکلیف پہنچتا دیکھے بلکہ وہ تو اس کا دفاع کرتا ہے کہ اسے کوئ تکلیف نہ ہو ، اورنہ ہی وہ اس بات پرراضي ہوتا ہے کہ وہ اسے دشمن کے سپرد کردے تا کہ وہ اسے تکلیف دے یا پھر اس پر سب و شتم کرے ۔

اورپھر اسے قتل کرنے کے لیے پیش کردینا اوراسے بہت برے طریقے پر سولی پر لٹکانا جو کہ بہت ہی برا قتل ہے کس طرح ہوسکتا ہے ، جب عام مخلوق میں سے ایک شخص کی یہ حالت ہے پھر رب ذوالجلال کے متعلق یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟

تیسری :

نصاری کا گناہوں سے کفارہ والے عقیدے کا انسانی زندگی پرسلبی اثر ہے ، جس طر ح کہ آپ نے بیان کیا ہے اس لحاظ سے تو نصرانی عقیدہ کے مطابق انسان پرکوئ بھی کسی چيز کا التزام کرنا ضروری نہیں بلکہ اسے صرف یہ عقیدہ رکھنا چا ہيۓ کہ اللہ تعالی نے اپنے بیٹے کواس زمین پرسولی پرلٹکنے اورلوگوں کے گناہوں کے کفارہ میں مرنے لیے لیے بھیجا تھا ۔

تواس طرح کا عقیدہ رکھنےوالا نصرانی ہوجاۓ گا اوراسے رب ذوالجلال کی رضا اورجنت میں داخل ہونے کی ضمانت مل جاۓ گی ، اوریہ ہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی کے بیٹے کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اگلے پچھلے اورحاضرو مستقبل کے تمام گناہوں کا کفارہ ہے جس کے بعد کسی بھی نصرانی معاشرے کوقتل وغارت اورچوری چکاری اورغصب اورہمیشہ شراب نوشی اوردوسرے گناہوں پر کوئ باز پرس نہيں ہوگی ؟

کیا مسیح علیہ السلام ان گناہوں کے کفارہ میں نہیں مرے ؟ اوروہ سارے گناہ معاف اورمٹا نہیں دیے گۓ ؟ توپھر معاصی اورگناہ کرنے سے کیوں روکتے ہیں ؟ ۔

آپ کواپنے رب کی قسم مجھے ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگرتمہاری نظروں میں جرم کرنے والے مجرم کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا گيا ہے اوراسکے سارے جرائم مسیح علیہ السلام کے خون کے بدلے میں معاف کردیۓ گۓ ہيں توپھر تم قاتل کوبعض اوقات سزاۓ موت کیوں دیتے ہو ؟

اور پھر مجرم کوقیدی کیوں بناتے ہو اورمجرم کومختلف قسم کی سزائيں کیوں دیتے ہو؟ کیا یہ ایک عجیب وغریب تناقض نہیں ؟

5 - آپ نے جواپنی کلام میں کہا ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ انسانوں میں اللہ تعالی کی اختیار کردہ برگزیدہ قوم ہیں توپھر اپنا عقیدہ پھیلاتے کیوں نہیں ؟

تواس کا جواب یہ ہے کہ : ان میں سے مخلص اورکتاب وسنت پرعمل کرنے والے مسلمان تواس کام کونبھا رہے ہیں اور یہ عقیدہ پھیلا رہے اوراس کی دعوت بھی دیتے ہیں اوراگریہ کام نہیں تھا توآپ یہ بتائيں کہ وہ کونسی چيز ہے جس نے اسلام کومکہ مکرمہ سے نکال کرانڈونیشیا اورسائبریا اور مغرب میں اوراسی طرح بوسنیا اورجنوبی افریقہ اورمشرقی ومغربی ممالک میں پہنچایااورپھیلایا ؟

کچھ مسلمانوں کے سلوک اورمعاملات میں آج جوبعض غلطیاں اوراخطاء پائ جاتی ہیں وہ اسلام پرنہیں ڈالی جاسکتیں اورنہ ہی اس میں اسلام کا قصور ہے اورنہ ہی اسلام اس کا سبب ہے بلکہ یہ توصرف اسلام کی مخالفت کی بنیاد پرپائ جاتی ہيں ۔

یہ کوئ عدل وانصاف نہیں کہ کسی منھج کے کچھ پیروکاروں اورمتبعین جنہوں نے منھج سےانحراف اوراس کی مخالفت کی ان کی غلطیاں اس منھج پرڈال دی جائيں ، کیا مسلمان عیسائیوں سے زیادہ عدل وانصاف کے مالک نہیں کہ جب وہ اس کا اقرار کرتے اورکہتے ہیں کہ گنہگار شخص اگر اپنے گناہ سے توبہ نہيں کرتا تواللہ تعالی کے عقاب وسزا کا مستحق ٹھرے گا ۔

اورپھر کچھ گناہ توایسے ہیں جن کی حد تواسے دنیا میں ہی لگا‎ئ جاتی ہے اوریہ حد اس کے لیے آخرت میں اس کا کفارہ بنے گی مثلا قتل اورچوری اورزنا کی حدیں الخ ۔

6 - اورآپ نےجویہ کہا ہے کہ انسان کا عیسائیت میں داخل ہونا اسلام سے بھی آسان ہے یہ ایک ایسی بات ہے جو سراسر حقیقت اورواقع کے خلاف اورغلط ہے اس لیے کہ اسلام کی چابی اوراس میں داخل ہونے کے لیے صرف دو کلمات پکارنے پڑنے ہیں :

( أشهد أن لا إله إلا الله وأنّ محمدا رسول الله ) میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اور معبود برحق نہیں اورمیں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ۔

ان کلمات کے کہنے سے ہی چند سیکنڈ کے اندر شخص مسلمان بن جاتا اوراسلام میں داخل ہوجاتا ہے اورکسی پادری اورتعمید وبپتسمہ کی ضرورت نہیں اورنہ ہی کسی خاص جگہ یعنی مسجد وغیرہ میں جان پڑتا ہے ۔

آپ اسلام میں داخل ہونے اورعیسائیت کے قبول کرنے میں جوعمل کیے جاتے ہیں ان کے درمیان موازنہ کرکے دیکھیں کہ عیسائیت قبول کرتے وقت جوکچھ مضحکہ خیز تعمید و بپتسمہ کیا جاتا ہے وہ کیا ہے اور پھر عیسائ صلیب کومقدس سمجھتے ہيں جس نے ان کے گمان کے مطابق توانہیں تکلیف دی اوراسی صلیب پرانہیں سولی پرلٹکایا گیا

لیکن پھر بھی وہ اسے مقدس اوراس میں برکت اورشفا سمجھتے ہیں حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس کی مذمت کرتے اوراسے ناپسند کرتے اوراسے ایک ظلم کی نشانی اورالہ کے بیٹے کی موت کی قبیح شکل گردانتے ! ! اوریہ وہی ہے جس نے اس کی کمردھری کردی اوراسے نیند سے بھی محروم کردیا ۔

7 - کیاآپ میرے ساتھ یہ نہیں دیکھتیں کہ مسلمان باقی سب لوگوں سے زيادہ حق پرہيں اوروہ سب انبیاء و رسولوں پرایمان رکھتے اوران کی عزت وتوقیر کرتے ہيں اوران یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ سب انبیاء و رسول حق اورتوحید پرتھے اورہر ایک کو اللہ تعالی نے نبی بنایا اوراسے اس کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔

اوراسے اس دور اورجگہ کی مناسب شریعت سے بھی نوازا ، اورجب ایک انصاف کرنے والا نصرانی اورعیسائ یہ دیکھتا ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام اورموسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان رکھتے ہیں اوروہ توارت و انجیل اورقرآن مجید پربھی ان کا ایمان ہے ۔

اورپھروہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی قوم کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں اوران کی نبوت کا انکار کرتے اوران کی کتاب قرآن مجید کوجھٹلاتے ہیں تواس کا انصاف اسے یہ نہیں کہتا کہ مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہے اوروہ حق پرہيں ؟

8 - اورآپ نے جویہ ذکرکیا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے کہا ہے کہ : باپ تک میرے ذریعہ کے علاوہ کوئ بھی نہیں پہنچ سکتا ۔

پہلے تواس قول کا ثبوت پیش کرنا چاہیۓ اوراس کی عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت کی صحت کا ثبوت پیش کرنا بھی ضروری ہے ۔

اوردوسری بات یہ ہے کہ یہ کلام واضح طورپرباطل ہے ، تواللہ عزوجل کونوح ، ھود ، صالح ، یونس ، شعیب ، ابراھیم ، موسی ، عیسی ، اوردوسرے انبیاء علیہم السلام کے دورمیں انسانیت نے اللہ تعالی نے کوکس طرح پہچانا ؟

اوراگر مقولہ کچھ اس طرح ہوتا کہ – بنی اسرائیل عیسی علیہ السلام کے دورمیں اوران کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک - اللہ تعالی کے دین اورشریعت تک عیسی علیہ السلام کے بغیر نہیں پہنچ سکتے توہم یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ بات صحیح ہے اورعبارت بھی سلیم اوراس میں کچھ جان ہے ۔

9 - اورآپ نے جومسیح علیہ السلام کی بات کوختم کرتے ہوۓ ذکر کیا ہے کہ : میں اورباپ ایک ہی ہیں ، تویہ ایک ایسا عقیدہ ہے جوکہ قابل قبول نہیں بلکہ مرفوض ہے اگر آپ عدل وانصاف کے راستہ پرچلتے ہوۓ خواہشات اورتعصب سے علیحدہ ہوں تو آپ پر یہ واضح ہو گا کہ یہ قول ( میں اورباپ ) یہ کلمہ معطوف اورمعطوف علیہ اورحرف عطف پرمشتمل ہے ۔

اورلغت کے قواعدمیں عطف تغایر کا تقاضہ کرتا ہے یعنی وہ کچھ اورباپ کچھ اورہے ، اوراگر کوئ شخص یہ کہے کہ میں اورفلاں شخص توہر عقل مند یہ ہی سمجھے گا کہ وہ دو اورمختلف ہیں اور 1+1+1= 1 ایک کے مساوی ہے تویہ بھی صحیح نہیں بلکہ سب عقلمندوں اور ریاضی دانوں اوردوسروں کے ہاں مرفوض اورغیر صحیح ہے ۔

ہم آخرمیں اپنے اس مضمون کوختم کرتے ہوۓ آپ کووصیت کرتے ہیں اورمیرے خیال میں آپ اس وصیت کورد نہیں کریں گی کہ آپ ان سب باتوں کوجو آپ نے پہلے کی ہیں پس پشت ڈالتےہوۓ یک سو ہوکر کسی قسم کا بھی تعصب اپنے ذہن مین نہ رکھيں بلکہ خالی الذھن ہوکر اللہ تعالی کےبارہ میں سوچيں اوراس سوچ میں آپ اللہ وحدہ لاشریک سے ھدایت طلب کریں ۔

اوراللہ تعالی کی شان ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کوذلیل نہیں کرتا ، اوراللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی طرف ھدایت دینے والا ہے ، اوروہ ہمیں کافی ہے اوربہت ہی اچھا کارساز ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد