سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک خیراتی ہسپتال کو صدقات دینے کا کیا حکم ہےجس کے مالک کے بارے میں بے مروّت ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے ۔

سوال

ہمارے علاقے بر صغیر میں ایک کینسر ہسپتال ہے، یہ ہسپتال غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے، اس ہسپتال میں امیر اور غریب سب کا یکساں خیال کیا جاتا ہے، پورے ملک سے غریب لوگوں کی بہت بڑی تعداد مفت علاج کیلیے یہاں آتی ہے، بہت سے لوگ اس ہسپتال کو عطیات بھی دیتے ہیں ، لیکن ہسپتال کا مالک سیاست میں ڈوبا ہوا ہے، اس کے بارے میں بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بد اخلاق ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے بارے میں افواہیں پائی جاتی ہیں ، ان میں سے کچھ تو بالکل سچ ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ: کیا ہمارے لیے اس قسم کے ہسپتال کو صدقات اور عطیات دینا جائز ہے؟ کہ حقیقت میں تو یہ غریب لوگوں کی مدد کرتا ہے، اگرچہ یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ اس ہسپتال کا مالک ملنے والے عطیات میں سے کچھ کو ذاتی استعمال میں لاتا ہو گا، حالانکہ ہسپتال کے پاس کڑی نگرانی کیلیے مستقل ادارہ ہے، لیکن پھر بھی ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کیا ہمارے عطیات صد فی صد مریضوں پہ ہی خرچ ہوتے ہیں؟ تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ جس انداز سے ہسپتال میں طبی خدمات پیش کی جاتی ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مالک کچھ عطیات ذاتی استعمال میں لاتا ہو گا سارے عطیات نہیں، واضح رہے کہ اس ہسپتال کو حکومت کی جانب سے کوئی معاونت حاصل نہیں ہے، اس ہسپتال کی ساری آمدن کا ذریعہ صدقات اور عطیات ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر ہسپتال سے فقیروں اور غریبوں کو فائدہ ہو رہا ہے جیسے کہ آپ نے ذکر بھی کیا ہے، تو پھر اس ہسپتال کی کامیابی اور اپنے مشن میں جاری رہنے کیلیے اسے صدقات اور عطیات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اس لیے بھی کہ حکومت اس ہسپتال کی کوئی مالی معاونت نہیں کرتی۔

زیادہ سے زیادہ اس شخص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ : جس قدر ممکن ہو مالک کو وصول ہونے والے عطیات پر اختیار نہ دیا جائے، اس کے لیے طاقتور نگرانی کمیٹی بھی قائم ہو سکتی ہے یا معاشرتی طور پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے، یا اس کے علاوہ جو بھی مناسب ذریعہ ہو اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر لوگوں سے ملنے والے عطیات  پر مالک کی اجارہ داری ختم کرنا ممکن نہ ہو ، اور مریضوں کی حقوق کی پامالی ہو تو پھر مصلحت کو مد نظر رکھیں گے:

چنانچہ اگر ہسپتال کو عطیات دینے میں زیادہ مصلحت  نظر آتی ہے کہ عام لوگ  اس سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں ، جبکہ مریضوں کے علاج اور عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ اس آدمی کی طرف سے مالی غبن  عوامی فائدے کے مقابلے میں معمولی ہے   تو پھر ایسی حالت میں اس ہسپتال کو صدقات دے سکتے ہیں۔

اور اگر  عطیات کی مد میں ہسپتال کی ضرورت کی اشیا خرید کر  دیں، مثلاً: ادویات، مشینری اور دیگر اشیا تو  ایسے ممکن ہے کہ اس شخص کی مالی بے ضابطگیاں ختم ہو جائیں یا قدرے کم ہو جائیں، تو پھر اس ہسپتال کے ساتھ  اسی طرح تعاون کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔

اور اگر کوئی شخص احتیاط کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس طریقے کو اپناتا ہے کہ فقیروں اور غریبوں کو اپنے ہاتھ سے  عطیات تھمائے  تا کہ اسے غریب مریضوں تک اپنی رقوم پہنچنے پر تسلی ہو تو یہ طریقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ اس طریقے کی اہمیت اس وجہ سے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ ہسپتالوں کے چکر لگانے والے ضرورت مند مریض بہت زیادہ ہیں، بلکہ  غیر مریض ضرورت اور غریب بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ہمارے علاقے میں ایک خیراتی ادارہ ہے؛ کیا میں اپنے مال کی زکاۃ اس رفاہی ادارے میں دے سکتا ہوں؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر اس رفاہی ادارے میں کام کرنے والے لوگ دینی اور علمی اعتبار سے معتبر اور معتمد ہیں تو آپ انہیں اپنے مال کی زکاۃ دے سکتے ہیں، انہیں یہ بتلا دیں کہ یہ زکاۃ ہے، تا کہ وہ زکاۃ کو زکاۃ کے مصارف میں ہی خرچ کریں۔

لیکن اگر آپ کو ان کے بارے میں علم نہیں کہ وہ معتبر ہیں یا نہیں؟ تو پھر بہتر یہی ہے کہ آپ خود  غریبوں تک یہ زکاۃ پہنچائیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ ہر حالت میں  آپ خود ہی غریبوں تک پہنچایا کریں  یہ سب سے افضل ہے؛ کیونکہ اس طرح سے ایک تو آپ خود اپنے مال کی زکاۃ نکالیں گے اور دوسرا آپ کو اپنی زکاۃ غریبوں تک پہنچنے کا مکمل یقین ہو گا، اور غریبوں تک پہنچانے میں جو آپ کو تگ و دو کرنی پڑے گی اس پر اجر و ثواب الگ  ملے گا، لہذا کسی کو اپنی زکاۃ تقسیم کرنے کی ذمہ داری دینے سے بہتر ہے کہ آپ خود ہی زکاۃ تقسیم کریں" انتہی
فتاوى نور على الدرب " (7/408)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب