جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کیا تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنا واجب ہے؟

سوال

میں نے شیخ شعراوی کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ جعفر صادق رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے اس شخص پر تعجب ہے جس کے خلاف لوگ چالیں چلتے ہیں اور وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد نہیں کرتا: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ)[میں اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے] تو کیا یہ قول صرف لوگوں کے چالیں چلنے پر ہی محصور ہے؟ یا اسے کسی اور معانی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو وہ کون کون سے ہیں؟ اور کیا یہ کہنا جائز ہے کہ: میں اپنے بچوں کو اسلامی آداب سکھانے کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ کہ اپنی پسند ان کے ہاں بھی پسندیدہ بنا دے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جعفر صادق رحمہ اللہ کی جانب منسوب قول میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی جانب اشارہ ہے جس میں  آل فرعون کے ایک مومن  کا واقعہ ہے اور وہ اپنی قوم سے کہتا ہے:
( فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ [44] فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ )
ترجمہ: پس عنقریب تم یاد کرو گے جو میں تمہیں کہتا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے [44] تو اللہ نے اسے ان کی چلی ہوئی چال بازیوں سے بچا لیا اور  آل فرعون کو سخت عذاب نے پکڑ لیا۔ [غافر :44 - 45]

شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ [44] فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا)[اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے [44] تو اللہ نے اسے ان کی چلی ہوئی چال بازیوں سے بچا لیا] واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی پر سچا توکل  اور معاملات اللہ کے سپرد کر دینا  ہمہ قسم کے نقصانات سے تحفظ اور بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

چنانچہ اس آیت کریمہ میں یہ دلیل ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے اس ایک مومن کے خلاف چال بازی کی اور اللہ تعالی نے اسے بچا لیا ، یعنی اسے ان کی چالبازیوں اور مکاریوں سے تحفظ عطا کر کے نجات دے دی، صرف اللہ تعالی پر توکل کرنے کی وجہ سے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کی وجہ سے" ختم شد
"أضواء البيان" (7 / 96 - 97)

حقیقت میں یہ آیت بھی دیگر آیات کی طرح ہے، جیسے کہ  اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ [173] فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ )
ترجمہ: وہ لوگ جنہیں لوگوں نے کہا تھا: بیشک [کافر] لوگ تمہارے خلاف جمع ہو رہے ہیں لہذا ان سے ڈر جاؤ؛ تو اس بات نے ان کا ایمان مزید بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے [173] تو وہ اللہ کی نعمتوں اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے  انہیں کسی نقصان نے چھوا تک نہیں تھا، نیز انہوں نے رضائے الہی کی اتباع کی  تھی، اور اللہ بڑے عظیم فضل والا ہے۔ [آل عمران :173 – 174]

تو معاملات کو اللہ کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالی پر توکل کیا جائے۔

امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اللہ تعالی کا فرمان: ( وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ) اس کا مطلب یہ ہے کہ: میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، اپنے معاملے کو اللہ کے ذمے چھوڑتا ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں؛ کیونکہ وہ توکل کرنے والوں کیلیے کافی ہے" ختم شد
"تفسیر طبری" (20 / 335)

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ) کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالی پر توکل کرتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (7 / 146)

دوم:

تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنا اور اسی پر توکل کرنا دینی یا دنیاوی تمام امور میں مطلوب ہے، اس بارے میں اللہ تعالی نے بہت سی آیات نازل فرمائی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ )
ترجمہ: اور اللہ تعالی پر ہی توکل کرو ؛ اگر تم مومن ہو تو [المائدة :23]

ایسے ہی فرمایا:  ( وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا )
ترجمہ: اور اللہ تعالی پر ہی توکل کریں، وہ کارسازی کیلیے کافی ہے۔ [ النساء :81]

ایک اور مقام پر فرمایا: ( وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ )
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا غیبی علم صرف اللہ کیلیے ہے اور تمام معاملات اسی جانب  لوٹائے جاتے ہیں ، پس آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر توکل کریں، اور تیرا رب ان کے کاموں سے غافل نہیں ہے۔ [ ہود :123]

ایک جگہ پر فرمایا:  ( وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ )
ترجمہ: اور زندہ پر توکل کریں  جسے کبھی موت نہیں آنی۔[ الفرقان :58]

اس لیے بچوں کی تربیت کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا مطلب  اللہ پر توکل کرنا ہےاور  اللہ سے اس کیلیے التجا کرنا ہے تا کہ یہ مقصد پورا ہو جائے، لہذا تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنا بہت اچھا اور مطلوب عمل ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی پر توکل  عظیم ترین عبادت ہے۔

لیکن صحیح توکل اور سپردگی کا  مطلب یہ ہے کہ : شرعی اور جائز اسباب بھی لازمی طور پر اپنائے جائیں، جیسے کہ اس بات کی طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اشارہ بھی موجود ہے، آپ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں سواری کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹنا باندھ کر توکل کرو)
اس حدیث کو ترمذی (2517) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح سنن ترمذی (2/610) میں حسن کہا ہے۔

اس کی شرح میں علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس آدمی نے پوچھا تھا: (أعقلها ) میں گھٹنا باندھوں متکلم کا صیغہ استعمال کیا یعنی میں یہ کام کرو، استفہامیہ انداز میں اس لیے اس سے پہلے ہمزہ استفہام محذوف مقدر ہے، قاموس میں ہے " عَقَلَ البَعِيْرَ" اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ کی پنڈلی کا باریک حصہ  اس کے بازو سے باندھ دیا جائے، ختم شد (وأتوكل) کا مطلب ہے کہ بازو باندھنے کے بعد اللہ پر توکل کرو۔

پھر کہا: " أطلقها" یعنی اسے کھلا چھوڑ دوں اور (وأتوكل)  تو کل کروں یعنی کھلا چھوڑنے کے بعد توکل کرو؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(أعقلها)  یعنی اس کو پہلے باندھو، مناوی  رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی اپنی اونٹنی کا گھٹنا پہلے اس کے بازو سے باندھو اور پھر توکل کرو، یعنی اسباب اپنانا توکل کے منافی نہیں ہے" ختم شد
"تحفة الأحوذی" (7 / 186)

اس لیے اللہ تعالی پر حقیقی توکل کرنے والا شخص شرعی اسباب اپناتا ہے ، اور اگر معاملہ واجبات سے تعلق رکھتا ہو تو پھر لازمی اسباب اپناتا ہے۔

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح رہے کہ توکل  کی حقیقت ایسے اسباب اپنانے کے منافی نہیں ہے جن کے ساتھ اللہ تعالی  نے انسانی قدرت  کے دائرے میں امور کو منسلک کیا ہوا ہے، اور اسباب اپنانا اللہ کی مخلوق میں مسلمہ قانون الہی بھی ہے کہ اللہ تعالی اسباب اپنانے والے کو نوازتا ہے، لیکن ساتھ میں توکل کا بھی حکم ہے، تو ایسی صورت میں اسباب  اپنانے کیلیے جد و جہد کرنا عملی طور پر اللہ کی اطاعت ہے، جبکہ دلی طور پر توکل اس پر ایمان کا تقاضا ہے۔۔۔

پھر انسان جو اعمال کرتا ہے ان کی تین اقسام ہیں:
ان میں سے پہلی قسم ایسی عبادات ہیں جنہیں سر انجام دینے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالی نے ان عبادات کو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا، تو ایسے کاموں کو کئے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن ساتھ میں توکل کرنا ضروری ہے اور ایسے نیک کاموں کیلیے اللہ تعالی سے مدد بھی مانگنی چاہیے؛ کیونکہ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنے ذمہ واجبات میں کمی یا کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو وہ  دنیا و آخرت میں کوتاہی کی مقدار کے برابر شرعی اور تقدیری ہر اعتبار سے سزا  کا مستحق ٹھہرتا ہے" ختم شد
"جامع العلوم والحكم" (2 / 498 - 499)

بچوں کی پرورش کے حوالے سے یہ بات لازمی ہے کہ اللہ تعالی پر توکل بھی ہو اور صحیح تربیتی وسائل اور اسباب بھی اپنائے جائیں، جیسے کہ شریعت میں بھی انہیں اپنانے کا حکم موجود ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت گیر  فرشتے ہیں وہ اللہ  کے دئیے ہوئے حکم کی یکسر نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کچھ کر گزرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔[ التحريم :6]

شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"انسان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اہل خانہ  کو اچھی باتوں کا حکم دے، مثلاً: بیوی ، بچوں اور دیگر اہل خانہ کو اچھی باتوں کا حکم دے اور برائی سے روکے؛ کیونکہ فرمان باری تعالی ہے: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا) [اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) الحدیث" ختم شد

"أضواء البيان" (2 / 209)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب