الحمد للہ.
اول:
آپ نے اس كا حكم معلوم نہ ہونے كى بنا پر جو نمازيں ادا كى ہيں اس ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں، اور نہ ہى جنبى حالت ميں ادا كردہ نمازوں كى قضاء ہے، اگر كوئى شخص علم كے حصول اور سوال كرنے ميں كوتاہى نہ كرے تو شريعت جاہل كو معذور قرار ديتى ہے، چاہے اس نے واجبات ترك كيے ہوں يا پھر حرام كا ارتكاب كيا ہو.
ليكن اگر علم كے حصول اور سوال كرنے ميں اس نے كوتاہى كى ہو تو وہ اس تقصير كى بنا پر گنہگار ہو گا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كہتے ہيں:
" حدث اصغر يا اكبر كى حالت ميں بغير طہارت اجماعا نماز صحيح نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہو تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو لو... المآئدۃ ( 6 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بغير طہارت كے نماز قبول نہيں ہوتى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 224 ).
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 259 ).
دوم:
اگر آپ كو جنبى كى نماز كا شرعى حكم معلوم ہے كہ جنبى شخص كے ليے غسل كرنے سے قبل نماز ادا كرنى جائز حلال نہيں، تو آپ اس فعل پر گنہگار ہيں، اور آپ كے ذمہ توبہ و استغفار اور اس پر ندامت اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا عزم كرنا واجب ہے، اور اسى طرح اس حالت ميں ادا كردہ نمازوں كى قضاء بھى واجب ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں ايك عورت ہوں ميرى سترہ برس قبل شادى ہوئى تھى، شادى كى ابتدا ميں تو ميں غسل جنابت كے بعض بلكہ مكمل احكامات سے جاہل تھى، كيونكہ مجھے جنابت كا باعث بننے والے امور كا علم نہ تھا، اور اسى طرح ميرا خاوند بھى جاہل تھا.
اور ہمارى يہ جہالت اس پر منحصر تھى كہ جنابت صرف خاوند پر ہوتى ہے، ميرى شادى رمضان سے تقريبا ايك ماہ قبل ہوئى اور اسى برس ماہ رمضان كے آخر ميں مجھے حكم كا علم ہوا، اس مدت كے دوران ادا كردہ نمازوں كے متعلق مجھے كيا كرنا ہو گا.
يہ علم ميں ركھيں كہ ميں صفائى كى نيت سے غسل كرتى تھى نا كہ جنابت ختم كرنے كى نيت سے، اور پھر يہ غسل ہميشہ نہيں كرتى تھى، يعنى ہر جماع كے بعد نہيں كرتى تھى، يہ علم ميں رہے كہ ميں ہر نماز كے ليے وضوء كى محافظت ضرورى كرتى رہى ہوں.
يہ سب كچھ جہالت كى بنا پر ہوا ہے جيسا كہ ميں اشارہ بھى كر چكى ہوں، اور اسى طرح رمضان المبارك كے روزوں كے متعلق مجھ پر كيا لازم آتا ہے؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" غسل جنابت كيے بغير جو نمازيں ادا كى گئى ہيں ان كى قضاء آپ پر واجب ہے، كيونكہ آپ نے كوتاہى كى اور دين كى سمجھ اور اس ميں تفقہ اختيار نہيں كيا، اور قضاء كے ساتھ ساتھ آپ كو اللہ تعالى سے اس فعل پر توبہ بھى كرنا ہو گى.
اور رہا مسئلہ رمضان المبارك كے روزوں كا اگر تو رمضان كے دوران دن كو جماع نہيں كيا تو يہ روزے صحيح ہيں.
ديكھيں: فتاوى الجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 269 ).
سوم:
آپ كے پيچھے ادا كرنے والے مقتدى نماز نہيں لوٹائيں گے، كيونكہ ان كى نماز صحيح ہے، اور امام جس نے جنابت كى حالت ميں نماز ادا كى اس كى نماز باطل ہونے سے مقتديوں كى نماز باطل نہيں، جبكہ مقتديوں كو اس كا علم ہى نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
پچھلے كچھ ايام ميں جب ميں نے مغرب كى نماز كے ليے وضوء كرنا چاہا تو ميں نے اپنى سلوار پر منى كے اثرات ديكھے، تو ميں نے غسل كر كے مغرب كى نماز ادا كر لى، ليكن مجھے علم نہيں كہ احتلام كب ہوا ہے، كيا نماز فجر سے قبل ہوا يا كہ قيلولہ كے دوران؟
ميں اس مسئلہ ميں دريافت كرنا چاہتا ہوں، ميرا خيال ہے كہ ميں نے تين فرضى نمازيں، فجر، ظہر، اور عصر جنابت كى حالت ميں ادا كيں اور مجھے اس كا علم بھى نہ تھا، اور پھر حالت ايسى بنى كہ ميں نے ان نمازوں ميں لوگوں كى امامت كروائى جن كى تعداد تقريبا تين سو كے قريب تھى.
لہذا كيا ميں ان نمازوں كى قضاء كروں ؟
اور ميرى اقتدا ميں ادا كرنے والے مقتديوں كى نماز كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا مجھ پر اس جرم كى كوئى سزا لاگو ہوتى ہے ؟
ہميں معلومات فراہم كريں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" غسل جنابت كرنے كے بعد آپ كے ليے ظہر اور عصر كى نماز دوبارہ ادا كرنا واجب ہے، اور اس ميں جلدى كرنى ضرورى ہے، ليكن جن لوگوں نے آپ كى اقتدا ميں نمازيں ادا كي ہيں وہ نماز نہيں لوٹائيں گے، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كو جنابت كى حالت ميں بھول كر نماز فجر پڑھا دى، اور خود نماز فجر لوٹائى ليكن اپنے پيچھے نماز ادا كرنے والوں كو نماز لوٹانے كا حكم نہيں ديا.
اور اس ليے بھى كہ وہ آپ كى جنابت كا علم نہ ركھنے كى بنا پر معذور ہيں، ليكن آپ نماز فجر نہيں لوٹائيں گے؛ كيونكہ ہو سكتا منى دوپہر كو سونے ميں نكلى ہو، اصل ميں يہ ہے كہ جنابت كا يقين ہونے ميں نماز دوبارہ ادا كرنى واجب ہوتى ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 266 ).
واللہ اعلم .