الحمد للہ.
غير مسلم شخص كے ليے نہ تو اكيلے نماز ادا كرنا جائز ہے، اور نہ ہى مسلمانوں كے ساتھ صف ميں، بلكہ اس سے مطلوب يہ ہے كہ وہ نماز ادا كرنے سے قبل اسلام قبول كرے، اور پھر طہارت و پاكيزگى اور پھر باقى شروط پورى كر كے نماز ادا كرے.
اگر وہ اسلام قبول نہيں كرتا اور نہ ہى نماز ادا كرتا ہے، تو اسے نماز كى ادائيگى كا خطاب تو ہے، ليكن اس كى نماز اسلام لانے كے بعد ہى قبول ہو گى.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور ان كے صدقات و خيرات كى قبوليت ميں كوئى چيز مانع نہ تھى الا يہ كہ انہوں نے اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ كفر كيا التوبۃ ( 54 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:
اگر آپ بھى شرك كريں تو آپ كے اعمال ضائع كر ديے جائينگے، اور يقينا آپ نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو جائينگے الزمر ( 65 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نماز صحيح ہونے كى شروط بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس كے علاوہ بھى كچھ شروط ہيں، ..... جن ميں اسلام، عقل، تميز، بھى شامل ہيں، چنانچہ ہر عبادت اسلام، عقل اور تميز كے ساتھ قبول ہو گى، صرف زكاۃ ايك ايسى عبادت ہے جو راجح قول كے مطابق بچے اور مجنون كو ادا كرنى لازم ہے، اور بچے كا حج اس ليے صحيح ہے كہ نص ميں اس كا ذكر موجود ہے "
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 95 ) طبع دار ابن جوزى.
اور شيخ كا يہ بھى كہنا ہے:
اور نماز كى شرطيں يہ ہيں: اسلام، عقل مندى، تميز، وقت كا شروع ہونا، ستر ڈھانپنا، حدث سے طہارت و پاكيزگى اختيار كرنا، قبلہ رخ ہونا، نيت كرنا.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 289 ) طبع دار ابن الجوزى.
اور اسى طرح باقى عبادات بھى صرف مسلمان شخص كى ہى قبول ہوتى ہيں، كيونكہ عبادات صحيح ہونے كے ليے اسلام شرط ہے، اور اس كى قبوليت اسلام لانے پر موقوف ہے.
ابن رشد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
شرط كى دو قسميں ہيں:
صحيح ہونے كى شروط، اور فرض ہونے كى شروط:
صحيح ہونے كى شروط:
علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں كہ اسلام ان شرائط ميں شامل ہے، كيونكہ غير مسلم كى كوئى عبادت قبول نہيں.. اھـ
ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 1 / 133 ).
واللہ اعلم .