اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شہد کی مکھیوں کے لاروے کھانے کا حکم

سوال

کیا شہد کی مکھیوں کے لاروے کھانا جائز ہے؟

جواب کا خلاصہ

شہد کی مکھی کے لاروے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ شہد کی مکھی ، اور کیڑے مکوڑے کھانے کے مترادف ہے، اور ان کے بارے میں بنیادی حکم یہی ہے کہ انہیں کھانا جائز نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

لاروا: حشرات کی نشو و نما کے ابتدائی مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے جو کہ انڈے سے نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور پیوپا یا مکمل حشرہ بننے سے پہلے کا مرحلہ ہے، اس کی شکل کیڑے جیسے ہوتی ہے۔

شہد کی مکھیوں میں لاروے کا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ انڈے سے نکلے، اس وقت یہ لاروا چھوٹے حجم اور لمبوتری شکل میں ہوتا ہے، اس وقت اس کی آنکھیں یا ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں، اس کا رنگ سفید ہوتا ہے، لاروے کے انڈے سے باہر آنے سے پہلے ہی مخصوص مکھیاں ان انڈوں کے ارد گرد سفید مادے پر مشتمل شاہی غذا ڈال دیتی ہیں، اور جس وقت لاروا باہر نکلتا ہے تو یہ مخصوص مکھیاں  مزید تین دن تک سفید شاہی غذا ڈالتی رہتی ہیں، پھر کچھ دیر کے بعد لاروا چھ کونوں والے خانے میں  مزید لمبا ہونے لگتا ہے، اور پھر اپنے ارد گرد خانے کو بڑھانے لگتا ہے، اس مرحلے کو پیوپا بننے سے پہلے کا مرحلہ کہتے ہیں۔

تو اس سے واضح ہوا کہ لاروا شہد کی مکھی کا ابتدائی مرحلہ ہے، اور شہد کی مکھی کو مارنا منع ہے، لہذا  لاروے کو کھانے کی ممانعت بھی شہد کی مکھی کو مارنے کی ممانعت سے کشید ہوئی؛ کیونکہ یہ اصول ہے کہ: ہر وہ چیز جسے قتل کرنے سے روکا جائے اسے کھانا بھی جائز نہیں؛ کیونکہ اگر اسے کھانا جائز ہوتا تو اسے قتل کرنا بھی جائز ہوتا۔

سنن ابو داود: (5267) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں  کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چار جانوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا : چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد، اور لٹورا) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ سے صحیح قرار دیا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"ہدہد کو قتل کرنے کی ممانعت ہے، اور اسے قتل کرنے کی ممانعت سے اسے کھانے کی حرمت کشید کی گئی؛ اس بنا پر کہ جب کسی چیز سے منع کیا جائے تو بنیادی طور پر اس کا حکم حرمت والا ہوتا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار جانوروں کو قتل کرنے سے منع کیا: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد، اور لٹورا۔ اس حدیث کو امام احمد، ابو داود، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ: اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں یہ سب سے مضبوط ترین روایت ہے"  ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22/ 293)

تو چونکہ مذکورہ لاروے بھی شہد کی مکھی کے ہی ہیں تو انہیں قتل کرنا بھی شہد کی مکھی کو قتل کرنے کے مترادف ہوا، اور انہیں کھانا شہد کی مکھی کو کھانے  جیسا ہو گا۔

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے بڑی مکھی کے لاروے کھانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"بڑی مکھی بھی شہد کی مکھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہد کی مکھی کو قتل کرنے سے منع کیا ہے اس لیے اسے کھانا حرام ہو گا" ختم شد
http://www.saif.af.org.sa/ar/node/549

نیز لاروے کھانا بھی کیڑوں مکوڑوں کو کھانے کے مترادف ہو گا، اور کیڑوں مکوڑوں کو کھانے کے بارے میں اصل یہ ہے کہ انہیں کھانا جائز نہیں ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب انہیں الگ سے قصداً  کھایا جائے، اور وہ کیڑے کسی کھانے یا پھل میں پیدا نہ ہوئے ہوں۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21901)  اور (114855)کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب