سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شراب نوش كى نمازيں چاليس يوم تك قبول نہيں ہيں

27143

تاریخ اشاعت : 21-07-2008

مشاہدات : 10031

سوال

كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ شراب نوشى كرنے والے كى چاليس يوم تك نماز قبول نہيں ہوتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں بہت سارى صحيح احاديث ميں شراب نوشى كى سزا وارد ہے كہ اس كى چاليس يوم تك نماز قبول نہيں ہوتى، اور يہ حديث عمرو بن العاص، اور ابن عباس، اور ابن عمر، اور ابن عمرو رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 709 ) ( 2039 ) ( 2695 ) ( 1854 ).

ان احاديث ميں ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ثابت ہے:

عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى شراب نوشى كى اور اسے نشہ آگيا تو اس كى چاليس روز تك نماز قبول نہيں ہو گى، اور اگر وہ مر گيا تو آگ ميں جائيگا، اور اگر توبہ كر لے تو اللہ اس كى توبہ قبول كريگا، اور اگر اس نے دوبارہ شراب نوشى كى اور نشہ ہوگيا تو چاليس يوم تك اس كى نماز قبول نہيں ہو گى، اگر مر گيا تو آگ ميں جائيگا، اور اگر توبہ كر لے تو اللہ اس كى توبہ قبول كر لےگا، اور اگر اس نے پھر دوبارہ شراب نوشى كى اور نشہ ہوگيا تو اس كى چاليس يوم تك نماز قبول نہيں ہو گى، اگر مر گيا تو آگ ميں جائيگا، اور اگر توبہ كر لے تو اللہ اس كى توبہ قبول كريگا، اور اگر وہ پھر دوبارہ شراب نوشى كرتا ہے تو پھر اللہ كو حق ہے كہ وہ اسے روز قيامت ردغۃ الخبال پلائے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ردغۃ الخبال كيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جہنميوں كا خون اور پيپ "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3377 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 2722 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نماز قبول نہ ہونے كا معنى يہ نہيں كہ نماز ہى صحيح نہيں، يا پھر وہ نماز ادا ہى نہ كرے، بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ اسے اس نماز كا اجروثواب نہيں ملےگا، تو اس طرح نماز ادا كرنے كا فائدہ يہ ہو گا كہ وہ نماز كى ادائيگى سے برى الذمہ ہو جائيگا، اور اسے ترك كرنے كى سزا نہيں دى جائيگى، ليكن اگر وہ نماز بھى ادا نہ كرے تو اسے اس كى بھى سزا ہو گى.

ابو عبد اللہ محمد بن نصر المروزى كہتے ہيں:

" قولہ: " اس كى نماز قبول نہيں ہو گى " يعنى اسے شراب نوشى كى سزا كے طور پر چاليس يوم تك نماز كا ثواب حاصل نہيں ہو گا، جيسے علماء نے خطبہ جمعہ كے دوران كلام كرنے والے شخص كے متعلق كہا ہے كہ وہ ادا تو كرے گا ليكن اس كا جمعہ نہيں ہو گا، ان كى مراد يہ ہے كہ اسے اس گناہ كى پاداش ميں جمعہ كى ثواب حاصل نہيں ہو گا "

ديكھيں: تعليم قدر الصلاۃ ( 2 / 587 - 588 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 20037 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس كى نماز كى عدم قبوليت كا معنى يہ ہے كہ اسے اس نماز كا اجروثواب نہيں ملےگا، اگرچہ نماز ادا كرنے كى وجہ سے اس كا فرض ادا ہو جائيگا، اور اسے دوبارہ ادا كرنے كى كوئى ضرورت نہيں " اھـ

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ شراب نوشى كرنے والے پر نماز كى بروقت ادائيگى فرض ہے، اگر اس نے اس ميں كوئى كمى كى اور نماز ادا نہ كى تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرےگا، جو شراب نوشى جيسے كبيرہ گناہ سے بھى زيادہ بڑا ہے.

يہ تو شراب نوشى كرنے والى كى سزا ہے جب وہ توبہ نہ كرے، ليكن جو شخص توبہ كر لے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے اعمال بھى قبول فرما ليتا ہے، جيسا كہ سابقہ حديث ميں ہے " اگر وہ توبہ كرے تو اللہ اس كى توبہ قبول كر ليتا ہے "

اور جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " توبہ كرنے والا بالكل ايسا ہى ہے جيسے كسى شخص كا كوئى گناہ نہ ہو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4250 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں حسن قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب