الحمد للہ.
اول:
خونی طشتریوں سے بھر پور پلازما (Platelet Rich Plasma) جس کا اختصار (PRP) ہے، اس کے ذریعے علاج ایک جدید طریقہ ہے، اس کے ذریعے متعدد بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، اس میں مریض کے خون کا نمونہ مخصوص ٹیوب کے ذریعے لیا جاتا ہے جو اسی کام کیلیے بنائی جاتی ہیں، پھر خون سے بھری اس ٹیوب کو مخصوص مشین میں رکھ دیا جاتا ہے جو خونی طشتریوں سے بھر پورپلازما کو خون کے سرخ ذرات سے الگ کر دیتی ہے، اس کام میں 5 سے 9 منٹ صرف ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد ماہر معالج پلازما کو مریض کی مطلوبہ جگہ ٹیکے کے ذریعے منتقل کر دیتا ہے۔
یہ طریقہ علاج متعدد بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے، انہی میں بالوں کے گرنے کا مسئلہ بھی ہے، اس کیلیے مریض کو 4 سے 6 بار ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
مزید کے لیے آپ اس لنک پر جائیں:
https://goo.gl/ffiDKF
اس طرح کا علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس اعتبار سے بھی کہ یہ ایک انسان کا خون اسی کے جسم میں دوسری جگہ پر منتقل کیا جاتا ہے، اور اس اعتبار سے بھی کہ یہ طریقہ علاج خوبصورتی بڑھانے کیلیے نہیں ہے بلکہ یہ پیدا ہو جانے والے عیب کو دور کرنے سے تعلق رکھتا ہے، یعنی اس طریقہ علاج میں اللہ تعالی کے تخلیق کردہ جسم کو اس کی اپنی اصلی حالت میں واپس لایا جاتا ہے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر: 26 (1/4) جو کہ زندہ یا مردہ انسانی جسم کے کسی عضو کو کسی دوسرے انسان میں استعمال کرنے سے متعلق ہے، اس میں ہے کہ:
"تعریف اور تقسیمات:
اول: یہاں عضو سے مراد انسان کا کوئی بھی حصہ ہے، مثلاً: بافتیں، خلیے، خون، یا آنکھ کی پتلی وغیرہ، چاہے یہ اعضا انسان کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں یا جدا ہو چکے ہوں۔۔۔
پہلی صورت: کسی زندہ انسان کے اعضا کو منتقل کرنا، اس میں درج ذیل حالات شامل ہیں:
کسی عضو کو جسم کے کسی حصے سے اسی انسان کی کسی دوسری جگہ منتقل کرنا، مثلاً: جلد، یا چبنی ہڈی (غضروف)، ہڈی، رگیں اور خون وغیرہ کو منتقل کرنا۔۔۔
شرعی احکام کی رو سے یہ ہے کہ:
اول: کسی عضو کو انسان کے جسم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ اسی انسان کے جسم میں منتقل کرنا جائز ہے، تاہم اس بات پر مکمل اطمینان کر لیا جائے کہ اس آپریشن کی وجہ سے حاصل ہونے والا فائدہ متوقع نقصان سے زیادہ ہو، اور شرط یہ ہے کہ یہ آپریشن یا تو مفقود عضو کو بنانے کیلیے کیا جائے یا اس کی اصلی شکل واپس لانے کے لیے یا عضو کو دوبارہ اپنی ذمہ داریوں کے لیے کارآمد بنانے کیلیے یا پیدا شدہ عیب کی درستی کے لیے یا کسی انسان میں پائے جانے والے عیب کو زائل کرنے کیلیے جو اس شخص کے لیے نفسیاتی یا جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہو۔
دوم: کسی عضو کو ایک انسان کے جسم سے دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ عضو خود بخود پیدا ہونے والی کمی پوری کر لے، مثلاً: خون اور جلد، تاہم اس بات کا مکمل اطمینان کر لیا جائے کہ جو شخص اپنا عضو عطیہ کر رہا ہے وہ مکمل طور پر فیصلے کی اہلیت رکھتا ہو، اور دیگر معتبر شرعی شرائط بھی پوری ہوں " مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔
ماخوذ از: مجلہ فقہ اکیڈمی (ع 4، ج 1 ص 89)
دوم:
سر کی جلد میں لگائے جانے والے پلازما کے ٹیکوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ یہ ٹیکے کھانے پینے میں نہیں آتے اور نہ ہی کھانے پینے کا کام کرتے ہیں، حتی کہ اگر ان ٹیکوں میں کیلشیم بھی شامل کر دیا جائے تو اس سے صرف سر کی جلد کو ہی فائدہ ہو گا، یہ پھر بھی کھانے پینے کا کام نہیں کرے گا، یہ یوں سمجھ لیں کہ جلد پر کوئی بھی تیل وغیرہ لگا لیں جس سے جلد کو فائدہ پہنچے، نیز اس کا حکم سرمہ ڈالنے جیسا ہے کہ اس سے آنکھوں کو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح یہ غیر غذائی ٹیکوں والا حکم رکھتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سمیت کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں اگر دوائی کا اثر پیٹ تک پہنچ گیا ، لیکن وہ منہ یا ناک کے راستے سے نہیں پہنچا تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ کیونکہ منع یہ ہے کہ معدے میں کوئی چیز نہ پہنچے کہ وہ معدے میں پہنچ کر خون میں شامل ہو اور پھر پورے بدن میں پھیل جائے۔
اور یہ عمل پیٹ یا دماغ کی جھلی کے ذریعے کئے جانے والے علاج یا ٹیکے وغیرہ لگانے کی صورت میں نہیں ہوتا۔
مزید کیلیے دیکھیں: مجموع الفتاوى (25/ 247)
اسی طرح اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرارداد: (93) میں ہے کہ:
"درج ذیل امور روزہ توڑ دینے والے امور میں شامل نہیں ہیں۔۔۔ان میں یہ چیزیں بھی شمار کی گئیں:
جلد، گوشت یا رگوں میں لگائے جانے والے ٹیکے، لیکن غذائی سیال مادے اور ٹیکے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔۔۔
جو چیزیں جلد کے راستے جذب ہو کر جسم میں داخل ہوں، مثلاً: تیل، مرہم، جلد پر لگائے جانے والے طبی پلاسٹر جن میں دوائی یا کیمیائی چیزوں کی تہہ لگی ہوتی ہے۔ " ختم شد
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (38023) کا جواب ملاحظہ کریں
واللہ اعلم