الحمد للہ.
اول:
فطرانے کی مد میں صرف ایسی چیز ہی دی جا سکتی ہے جسے لوگ بنیادی غذا کے طور پر استعمال کریں، اس کی دلیل بخاری: (1510) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عید الفطر کے دن ایک صاع خوراک دیتے تھے۔ ابو سعید مزید کہتے ہیں: ہماری خوراک جو، کشمش، پنیر اور کھجور تھی۔
چاول، آٹا اور اسی طرح کی دیگر اشیا جنہیں لوگ بنیادی غذا کے طور پر استعمال کرتے ہوں بھی فطرانے میں دے سکتے ہیں ۔
اس بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ "إعلام الموقعين" (3/12) میں کہتے ہیں:
"یہ چیزیں مدینہ میں صحابہ کرام کی عام غذائیں تھیں۔ تو اگر کسی علاقے اور محلے کے لوگوں کی بنیادی غذا کچھ اور ہو تو وہ اپنی غذا کا ایک صاع دیں گے، مثلاً: کسی کی غذا مکئی ہے، یا چاول، یا انجیر، یا دیگر غذائی اجناس ہیں [تو اسی میں سے ایک صاع دیں گے]۔
اور اگر ان کی غذا دودھ، گوشت اور مچھلی وغیرہ ہیں اناج نہیں ہے، تو وہ اپنا فطرانہ اپنی علاقائی غذا میں دیں گے چاہے وہ کچھ بھی ہو، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے، اور یہی صحیح بات ہے اس کے علاوہ کچھ بھی موقف نہیں اپنانا چاہیے؛ کیونکہ فطرانے کا مقصد عید کے دن مساکین کی ضروریات پوری کرنا ہے، اور ان کی اشک شوئی اسی غذا سے ہو گی جو اس علاقے کی ہے۔
اس بنا پر آٹا فطرانے کی مد میں دینا صحیح ہے، چاہے اس بارے میں وارد ہونے والی حدیث صحیح ثابت نہیں ہے۔" ختم شد
دوم:
ایک فقیر شخص کو ایک سے زیادہ فطرانے کی مقدار دی جا سکتی ہے، اور یہ کہنا کہ آپ کے علاقے میں کسی کو بھی اناج کی ضرورت نہیں ہے یہ بہت دور کی کوڑی ہے! خیراتی ادارے جتنا بھی دے دیں عام طور پر غریب لوگوں کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/99) میں کہتے ہیں:
"ایک شخص کو پورے خاندان کا فطرانہ اور پورے خاندان کو ایک شخص کا فطرانہ دینا جائز ہے۔
پورے خاندان کو ایک شخص کا فطرانہ دینے کے بارے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ یہ عمل کر کے مکلف شخص نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے اور وہ اس سے اسی طرح بری الذمہ ہو گیا جیسے کہ اس نے ایک شخص کو فطرانہ دیا ہو۔
جبکہ پورے خاندان کا فطرانہ ایک شخص کو دینے کے بارے میں شافعی اور ان کے ہم موقف افراد یہ کہتے ہیں فطرانہ چھ اقسام پر تقسیم کرنا واجب ہے، پھر ہر قسم کے تین افراد کو دینا ضروری ہے، جیسے کہ اس کی تفصیل ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں اور اس کی دلیل بھی بیان کر آئے ہیں۔
ویسے بھی فطرانہ غیر معین شخص کے لئے صدقہ ہوتا ہے اس لیے صرف ایک شخص کو دینا بھی جائز ہے جیسے نفلی صدقہ دینا جائز ہے؛ یہ موقف مالک، ابو ثور، ابن منذر اور اہل رائے کا ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فطرانہ ہر شخص کی جانب سے ایک صاع مقرر ہے، لیکن اس میں یہ مقرر نہیں ہے کہ کس کو دینا ہے، اس لیے فطرانہ ایک سے زائد مساکین پر تقسیم کیا جا سکتا ہے، اور متعدد فطرانے ایک مسکین کو بھی دئیے جا سکتے ہیں۔" ختم شد
"الشرح الممتع "(15/ 161)
تو جب تک انسان فقیر اور غریب ہے اس وقت تک اسے متعدد فطرانے دینا جائز ہے۔
سوم:
اگر کسی علاقے میں غریب معدوم ہو جائیں، یا جو چیز انہیں دی جاتی تھی اب اس کی ضرورت انہیں نہیں ہے اس لیے وہ اسے معمولی قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں، تو پھر اسے کسی ایسے علاقے میں بھیج دیا جائے جہاں ضرورت مند موجود ہیں، یا کسی خیراتی ادارے کے پاس جمع کر لیا جائے، اور پھر بعد میں غریب لوگوں پر تقسیم کر دیا جائے۔
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہم فطرانہ جمع کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ جو فطرانہ ہمارے پاس پہنچتا ہے اسے ذخیرہ کرنا جائز ہے؟ کہ بعد میں ہر ماہ غریبوں میں تقسیم کر دیں؟ اس لیے کہ ہم اپنے آپ کو غریب لوگوں کا نمائندہ سمجھتے ہیں؟ یا پھر سارا فطرانہ نماز عید سے قبل تقسیم کرنا لازمی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ غریب لوگوں کو اتنا اناج دیں جو عید اور اس کے بعد کے ایام کے لئے کافی ہو۔
پھر جو باقی بچ جائے جو غریب لوگوں کی عید کے دن کی ضروریات سے زائد ہو تو آپ غریبوں کو دوبارہ ضرورت پڑنے تک اسے ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ پھر جب انہیں ضرورت ہو تو ان کی ضرورت پوری کر دیں۔
اور اگر آپ عید کے دن یا عید سے ایک دو دن پہلے فطرانہ غریبوں میں تقسیم کر دیتے ہیں تو یہ اصولی طریقہ ہے۔ تاہم اگر آپ کو معلوم ہو کہ غریب لوگ اس اناج کو آدھی یا چوتھائی قیمت پر فروخت کر دیں گے تو افضل یہ ہے کہ کسی اور غریب کو یہ فطرانہ پہنچائیں، یا کسی ایسی جگہ تقسیم کریں جہاں کے لوگ ضرورت مند ہیں، یا پھر آپ اسے ذخیرہ کر لیں، اور ہر ماہ یا جیسے مناسب سمجھیں اسے غریبوں میں تقسیم کریں۔ اللہ تعالی آپ کو توفیق دے۔ واللہ اعلم"
شیخ محترم کی ویب سائٹ سے اخذ کردہ:
https://www.ibn-jebreen.com/fatwa/vmasal-3264-.html
چہارم:
فطرانے کی مد میں گوشت دینا اسی وقت جائز ہو گا جب کسی علاقے کی بنیادی غذا گوشت ہو، جیسے کہ کرہ ارضی کے شمالی علاقوں کے لوگ ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/182) میں کہتے ہیں:
"لیکن اگر لوگوں کی غذا اناج یا سبزیاں وغیرہ نہ ہوں ، مثلاً: قطب شمالی میں رہنے والے لوگوں کی غذا عام طور پر گوشت ہوتی ہے، تو صحیح موقف یہ ہے کہ گوشت بھی فطرانے میں دینا کفایت کر جائے گا" مختصراً ختم شد
اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا:
"کچھ دیہاتوں کے رہائشی فطرانے کی مد میں گوشت دیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرانے کے لئے ایک صاع اناج کا فرض کیا ہے، جبکہ گوشت کا وزن ہوتا ہے اس کی پیمائش نہیں ہوتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اناج کا ایک صاع فطرانے کے لئے فرض فرمایا، جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرانے کے لئے کھجور کا ایک صاع ، یا جو کا ایک صاع فرض فرمایا) اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عید الفطر کے دن ایک صاع خوراک دیتے تھے۔ اور ہماری خوراک کھجور، جو، کشمش اور پنیر تھی۔)
اسی لیے اہل علم کے اقوال میں سے راجح موقف یہ ہے کہ فطرانہ نقدی کی شکل میں کفایت نہیں کرے گا، نہ ہی کپڑوں، بستروں وغیرہ کی شکل میں کفایت کرے گا۔ نیز ایسے اہل علم کے موقف پر اعتبار نہیں کیا جائے گا جو کہتے ہیں کہ فطرانے کی مد میں نقدی دی جا سکتی ہے؛ اس لیے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے صراحت موجود ہے تو اس کے بعد کسی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اور نہ ہی شریعت کو مفلوج کرنے کے لئے انسانی عقل کو جو اچھا لگے کیا جائے گا۔ اس لیے بلا شک و شبہ صحیح بات یہ ہے کہ فطرانے کی مد میں اناج دینا ہی درست ہو گا، نیز کسی بھی علاقے کی کوئی بھی بنیادی غذا ہو تو وہی کفایت کرے گی۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (18/ 280)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (99327) اور (233593) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم