اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کتابت، ترجمہ اور ڈیزائننگ جیسے کام وصول کر لیتا ہے پھر انہیں سر انجام دینے کیلیے دوسروں کو دے دیتا ہے۔

276680

تاریخ اشاعت : 09-11-2017

مشاہدات : 2867

سوال

جو چیز آپ کے قبضے میں نہیں ہے اسے فروخت کرنا حرام کے زمرے میں آتا ہے، اس میں ہر چیز شامل ہے صرف اشیا ہی نہیں! تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اپنی ملکیت سے غیر موجود سامان کو فروخت کرنے کیلیے تو دیگر دوسرے راستے بھی ہیں لیکن خدمات کا معاملہ سامان اور مصنوعات جیسا نہیں ہے کہ میں کسی سے خدمات اور سروسز خرید کر آگے فروخت کر دوں، مثال کے طور پر ڈیزائننگ کا معاملہ ہے کہ ہر شخص مخصوص نوعیت کی ڈیزائننگ کا مطالبہ کرتا ہے اور اسی طرح کتابت کا معاملہ ہے ہر شخص مخصوص موضوع پر تحریر چاہتا ہے ، یہی معاملہ پروگرامنگ اور ڈیویلپنگ کا ہے۔۔۔ تو کسی بھی گاہک کی ضروریات اسی وقت ہمیں معلوم ہوتی ہیں جب وہ آ کر اس کا مطالبہ کرتا ہے اور تفصیلات آکر بتلاتا ہے کہ مجھے فلاں چیز فلاں انداز سے چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آن لائن خدمات پیش کروں، ان خدمات میں کتابت، ترجمہ، ڈیزائننگ، پروگرامنگ، ویب سائٹ بنانا۔۔۔ وغیرہ شامل ہے، ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مجھ سے وقت مانگتی ہیں اور کچھ مجھے سرے سے کرنی ہی نہیں آتیں، تو ہوتا یوں ہے کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جاتا ہے جو یہ کام مجھ سے کم قیمت پر کر دیتا ہے، تو کیا میں کسٹمرز کے لیے ایسے کام کی پیشکش بھی کر سکتا ہوں جو مجھے کرنے ہی نہیں آتے، پھر گاہک کے مطالبے کے مطابق کسی اور شخص سے سستے داموں کام کروا لوں؟ کیا میرا اور اس شخص کا پہلے سے معاہدہ ہونا ضروری ہے؟
ضروری وضاحت: جن ویب سائٹس پر ہم کام کرتے ہیں اور اپنی خدمات پیش کرتے ہیں وہ معاوضہ براہ راست کام کرنے والے کو نہیں دیتے کہ گاہک خود سے اپنی ضرورت کے مطابق کام کرنے والے ساتھ معاہدہ کر لے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے، تا کہ مجھے سمجھ آ جائے ، اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے اور علم میں اضافہ فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان اپنی ملکیت سے باہر کسی  چیز کو فروخت کرے اس بات میں اور کوئی بھی کام کرنے کی ذمہ داری لینے   کے معاہدے میں فرق ہے، آخر الذکر کام مزدوری اور کاریگری کہلاتا ہے اور اس میں ایسا کرنا جائز ہے کہ انسان کسی کے ساتھ کوئی خاص کام کرنے کا معاہدہ کر لے اور پھر  یہی کام کسی اور کو کم قیمت پر کرنے کیلیے دے دے تا کہ بچنے والی رقم خود رکھ لے۔

لیکن اگر معاہدے میں یہ بات ہے کہ  جس سے کام کا معاہدہ ہو رہا ہے  وہ خود یہ کام کرے گا ، یا اس سے رابطہ ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ بذات خود یہ کام کرے گا کسی اور سے نہیں کروائے گا؛ کیونکہ اس میں ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو کہ گاہک کو مطلوب ہیں  [تو پھر یہ کام کسی اور کو آگے نہیں دے سکتا]، مثلاً:  کوئی شخص کسی مشہور خطاط یا ڈیزائنر سے کوئی کام کرنے کا معاہدہ کرتا ہے[تو یہ کام اسی کو خود سے کرنا ہوگا]۔

چنانچہ "كشاف القناع" (3/ 566) میں ہے کہ:
"جب کوئی مزدور معلوم اجرت کے عوض کوئی کام کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ، مثلاً: کپڑوں کی سلائی یا کوئی اور کام  تو اسے آگے کسی اور کو کم معاوضے میں دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی شخص  کو اجرت کے عوض کوئی کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ، مثلاً: اسے کہا گیا: ہم چاہتے ہیں کہ اس گھر کی روزانہ صفائی  کریں اور آپ کو ماہانہ سو ریال ملیں گے، تو وہ کسی اور شخص کو ماہانہ صرف پچاس ریال کے معاہدے پر گھر کی یومیہ صفائی کیلیے   مزدوری پر رکھ لیتا ہے ، تو یہ جائز ہے؛ کیونکہ اس معاہدے کا تعلق  اس قسم سے ہے جس میں  ہم نے کہا تھا کہ بقیہ مدت میں حقیقی اجرت سے زیادہ اجرت  دے سکتا ہے۔

آج کل لوگ اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں ، مثال کے طور پر حکومت کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیتی ہے کہ وہ مسجدوں کی صفائی ستھرائی کا انتظام کریں گی اور ہر مسجد کے عوض ماہانہ اتنا دیں گے، تو پھر یہ کمپنی  مزدوروں کو لا کر  معاہدے میں مطلوب کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن کمپنی کو اس میں حکومت کے ساتھ معاہدے کا ایک چوتھائی سے بھی کم خرچہ آتا ہے۔

البتہ اگر آجر کا مقصد اور ہدف مذکورہ بالا صورت سے الگ ہو تو پھر کسی دوسرے کو کام سونپنا جائز نہیں ہو گا۔

مثال کے طور : آپ کسی شخص کو فقہ حنبلی کی  کتاب زاد المستقنع  کی ایک کاپی تیار کرنے کیلیے اجرت پر رکھتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ اس آدمی کی املا اچھی ہے اور غلطیاں بہت کم کرتا ہے، لیکن اس شخص نے آگے کسی اور شخص کو یہ کام کم اجرت پر دے دیا کہ اس کی لکھائی بہت اچھی ہے، تو ایسی صورت میں علمائے کرام کہتے ہیں: یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں پر صرف لکھائی نہیں دیکھی جائے گی بلکہ املا کو بھی مد نظر رکھا جائے گا کہ سکتہ، قومہ، ختمہ لگانے کی کتنی مہارت ہے اور املا میں غلطیاں تو نہیں کرتا؟  کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جن کی لکھائی بہت اچھی ہے لیکن املا میں غلطیاں کرتے ہیں مثلاً:کوئی " غیر المغضوب علیھم ولاالضالین "میں دونوں جگہ "ض" کی بجائے "ظ" سے لکھتا ہے تو یہ تو املا کی غلطی ہے ۔ ایسے بہت سے طالب علم ملیں گے جن کی لکھائی بہت اچھی ہے لیکن املا میں غلطیاں کرتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کی لکھائی اچھی نہیں ہے حتی کہ ان کا لکھا ہوا وہی پڑھ سکتا ہے جو ان کی لکھائی پڑھنے کا عادی بن چکا ہو ، لیکن ان کی املا کی غلطیاں نہیں ہوتیں۔

الغرض : جب آجر کا مقصد  اور ہدف مخصوص اجیر ہو تو پھر اس کی جگہ کسی اور کو کام کی ذمہ داری دینا جائز نہیں ہے" ختم شد
"الشرح الممتع" (10/ 39)

اسی طرح اس بات میں کہ کوئی معین چیز جو ابھی ملکیت میں داخل نہیں ہوئی اسے فروخت کرنا اور کسی معین چیز کو تیار کر کے فروخت کرنے میں بھی فرق ہے اور اس آخر الذکر کو فقہی اصطلاح میں بیع سلم کہتے ہیں، یہ اس ممانعت سے مستثنی ہے جس میں ایسے چیز فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے جو ابھی آپ کی ملکیت میں نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کیلیے سوال نمبر : (184816) کا جواب ملاحظہ کریں۔

تاہم  آپ کے سوال میں جو چیز مذکور ہے اس کا تعلق اجارہ سے ہے، اس لیے یہ آپ کے لیے جائز ہے کہ  آپ کتابت، ترجمہ، ڈیزائننگ اور دیگر اس طرح کے کاموں کیلیے اپنی پیشکش گاہکوں کے سامنے رکھیں اور اجرت کے ساتھ ساتھ کام بھی متعین کر لیں اور پھر آپ خود سے اس کام کیلیے کسی کو ذمہ داری سونپ دیں، لیکن اگر گاہک کی یہ چاہت ہو کہ آپ خود یہ کام کر کے دیں تو پھر آپ وہ کام خود سے کریں گے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب