الحمد للہ.
سنت نبوی شرعی مصادر میں سے بنیادی ماخذ ہے اور قرآن کریم نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہر چیز پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دے اسے تھام لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ شدید سزا دینے والا ہے۔[الحشر :7]
اس لیے احادیث یاد کرنے کی ترغیب کے سلسلے میں ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جس قدر ہم سے احادیث یاد ہوں کرنی چاہییں یہ نہیں کہ کچھ یاد کر لیں اور کچھ نہ کیں۔
مزید زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی اس شخص کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے جو ہم سے کوئی ایک حدیث سنے اور اسے یاد رکھے یہاں تک کہ وہ دوسروں کے پہنچا دے؛ بہت سے فقہ کے حاملین [ایسے لوگوں کو بات پہنچا دیتے ہیں جو ] ان سے بھی زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں، اور کتنے ہی فقہ کے حاملین سمجھدار نہیں ہوتے) ترمذی: (2656)
امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: "اس مسئلے سے متعلق عبد اللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابو درداء اور انس رضی اللہ عنہم کی روایات ہیں جبکہ زید بن ثابت کی روایت حسن ہے"، نیز ابو داود (3660) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح سنن ترمذی " میں صحیح کہا ہے۔
نیز یہ بات بھی واضح ہے کہ یاد کرنے کے قابل کوئی بھی چیز ہو اس کی اہمیت اس کے مضمون سے ہوتی ہے کہ وہ کس چیز کے متعلق ہے؛ لہذا اگر واجبات اور حرام کردہ چیزوں سے متعلق کوئی چیز ہو تو پھر اسے یاد کرنا اور اسے سمجھنا مزید پختہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے بعد سنتوں ، مستحبات اور مکروہات کا درجہ آتا ہے۔
محترم بھائی!
اس لیے مسلمان کو جن امور کی نصیحت کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ احکام والی احادیث یاد کرے جن کی روزمرہ زندگی میں ضرورت پڑتی ہے، مثلاً: طہارت، نماز، روزہ، پھر زکاۃ [اگر اس پر واجب ہوتی ہو تو]اور حج ۔۔۔ الخ وغیرہ کی احادیث یاد کرے اور سمجھے۔
ابتدائی طور پر احکام والی روایات کے اعتبار سے مفید کتاب عمدۃ الاحکام ہے جو کہ حافظ عبدالغنی مقدسی کی تالیف ہے، پھر اس کے بعد ابن حجر کی بلوغ المرام کا درجہ آتا ہے۔
اسی طرح آدابِ عامہ اور اخلاقیات سے متعلق روایات بھی انسان کو معلوم ہونی چاہییں، اس ضمن میں امام بخاری کی "ادب المفرد" اور امام نووی کی جامع ترین کتاب : ریاض الصالحین بھی شامل ہے۔
تاہم اگر ابتدا میں کوئی شخص اربعین نوویہ یاد کرنا شروع کرے پھر اس کے بعد حافظ ابن رجب کی جانب سے کیا گیا اس پر اضافہ بھی یاد کر لے تو یہ بہت اچھی بات ہے اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ انہیں یاد کرنے کا ان شاء اللہ زیادہ فائدہ ہو گا۔
لہذا ایسی احادیث کو زبانی یاد کرنا اچھی بات ہے، لیکن اگر احادیث کے الفاظ یاد کرنا مشکل ہو تو پھر معانی اور مفہوم کو اپنے ذہن میں لازمی بٹھائے، اس لیے ان کتب احادیث کی شروحات اللہ کے فضل سے میسر ہیں اور بذریعہ انٹرنیٹ بھی ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیکن کچھ احادیث ایسی ہیں جنہیں یاد کرتے ہوئے ان کے الفاظ کو اچھی طرح یاد کرنا ضروری ہے ان میں تبدیلی ممکن نہیں ہے، ان میں دعاؤں اور اذکار پر مشتمل احادیث آتی ہیں۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (جب تم اپنے بستر پر آنے کا ارادہ کرو تو نماز جیسا وضو کرو اور پھر دائیں کروٹ لیٹ کر کہو: اَللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اَللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ [یا اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری جانب متوجہ کر دیا ہے، میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے، اور تجھ سے خوف اور امید کے ساتھ اپنی پشت پناہی تیری طرف سے چاہتا ہوں؛ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ اور نجات دہندہ نہیں ہے ، یا اللہ! میں تیری نازل کردہ کتاب پر اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لایا] اگر تم اسی رات فوت ہو گئے تو تم فطرت پر مرو گے ، نیز ان الفاظ کو سونے سے پہلے اپنے آخری کلمات بناؤ۔ سیدنا براء کہتے ہیں کہ میں نے پھر یہی الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنائے اور جب میں اَللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ پر پہنچا تو میں نے کہا: "وَرَسُوْلِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ " تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری تصحیح فرمائی اور کہا نہیں ایسے کہو: " وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ") بخاری: (247) ، مسلم: (2710)
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا براء کو " بِنَبِيِّكَ" کی بجائے " رَسُوْلِكَ" کہنے پر کیوں ٹوکا؟ اس کی حکمت میں سب سے بہترین بات یہ کہی گئی ہے کہ : اذکار کے الفاظ توقیفی ہوتے ہیں، اور ان اذکار کی خصوصیات ہوتی ہیں جن میں قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں؛ اس لیے جن الفاظ کے ساتھ اذکار منقول ہوں ان کی پابندی کرنا ضروری ہے" ختم شد
"فتح الباري" (11 / 112)
نیز ادعیہ اور اذکار کے حوالے سے مفید ترین اور مشہور ترین امام نووی کی کتاب: "الاذکار" ہے۔
تو اس طرح سے آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث یاد کرنے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم.