سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا جان بوجھ کر عود ہندی کا دھواں کھینچنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟

289121

تاریخ اشاعت : 18-05-2020

مشاہدات : 6990

سوال

کیا ناک کے نتھنوں کے علاج کے لیے رمضان کے روزے کے دوران عود ہندی کا دھواں ناک سے کھینچنا جائز ہے؟ کیونکہ روزہ رکھ کر میرے لیے منہ سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے، نیز یہ بھی بتلائیں کہ جن احادیث میں عود ہندی کے فوائد کا ذکر ہے کیا وہ سب صحیح ہیں یا نہیں؟ اور کیا اس کے دھوئیں کو سانس کے ذریعے اندر لے کر جانا جائز بھی ہے؟ کیونکہ اس کی صورت سگریٹ نوشی جیسی ہی بنتی ہے جو کہ حرام ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عود ہندی کے ذریعے علاج؛ مفید نبوی طریقہ علاج میں شامل ہے، امام بخاری نے اس کے بارے میں باب قائم کرتے ہوئے لکھا ہے:
"قسط ہندی اور بحری کے ساتھ ناک کے ذریعے علاج، امام بخاری کہتے ہیں کہ:اسے "کست" بھی کہتے ہیں جیسے کافور کو قافور ، [یعنی حرف ق کو ک سے اور حرف ط کو ت سے بدل کر پڑھنا۔ مترجم] پھر امام بخاری نے سیدہ ام قیس بنت محصین رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کی کہ وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ نے فرمایا: (عود ہندی استعمال کیا کرو، بلاشبہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے اور پسلیوں میں درد کے لیے اسے چبایا جاتا ہے۔) اس حدیث کو بخاری: (5692) اور مسلم: (2214) نے روایت کیا ہے۔

دوم:

جان بوجھ کر عام دھواں یا خوشبو دار دھواں اندر لے کر جانا متعدد فقہائے کرام کے ہاں روزہ ٹوٹ جانے کا باعث بنتا ہے، یہ موقف حنفی اور مالکی فقہائے کرام کا ہے، اسی موقف کے مطابق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے فتوی دیا ہے؛ کیونکہ دھوئیں میں نظر آنے والے ذرات ہوتے ہیں، چنانچہ جب انہیں ناک کے ذریعے سونگھے تو یہ ذرات منہ کے راستے سے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔

ابن عابدین رحمہ اللہ اپنے حاشیہ (2/ 97)میں لکھتے ہیں:
"اگر روزے دار اپنے حلق تک دھواں لے جائے چاہے اس کا طریقہ کار کچھ بھی ہو، حتی کہ اگر خوشبو دار دھواں بھی سانس کے ذریعے اندر لے جائے اور پھر اندر لے جا کر سانس روک لے، اسے یاد بھی ہو کہ اس کا روزہ ہے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ وہ اس دھوئیں سے بچ سکتا تھا، یہ ایسا معاملہ ہے کہ بہت سے لوگ اس سے اجتناب نہیں کرتے۔" ختم شد

اسی طرح "الشرح الكبير" (1/ 525) میں علامہ دردیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزے دار کو چاہیے کہ خوشبو دار لکڑی عود وغیرہ جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں بھی اندر نہ لے کر جائے، اسی طرح ہنڈیا سے پیدا ہونے والی بھانپ سے بھی بچے، اگر یہ حلق تک پہنچ جائے تو اس روزے کی قضا دینا لازم ہو جائے گا۔
یہی حکم اس دھوئیں کا ہے جو سگار وغیرہ کے ذریعے پیا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ دھواں تو حلق تک پہنچتا ہے، بلکہ پیٹ میں بھی جاتا ہے۔ بخور یا عود وغیرہ کے دھوئیں کی خوشبو میں ایسا نہ ہو کہ اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو پھر روزہ نہیں ٹوٹے گا۔" ختم شد

بلکہ بہوتی ؒ اور دیگر حنبلی فقہائے کرام نے بھی اس چیز کی صراحت کی ہے کہ جس وقت دھواں پیٹ میں عمداً لے جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (3/370) میں ہے کہ:
"اور اگر دھواں غیر ارادی طور پر حلق تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ کیونکہ اس میں قصد اور ارادہ نہیں پایا جاتا، ۔۔۔ تو یہاں سے یہ بھی پتہ چلا کہ جو شخص عمداً دھواں نگل لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ "حاشية الروض" از ابن قاسم: (3/402) کا مطالعہ بھی کریں۔

اسی طرح "الموسوعة الفقهية الكويتية" (26/ 210) میں ہے کہ:
"حنفی اور مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ اگر کوئی روزے دار اپنے حلق تک بخور [خوشبو دار دھواں] داخل کر لے اور اس کی خوشبو سونگھے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ اس سے بچنا ممکن ہوتا ہے، تاہم اگر دھواں حلق تک نہ پہنچے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
لیکن ہوا میں ایسی خوشبو سونگھ لے جو کہ دیکھنے میں نظر نہیں آتی ، تو حنفی فقہائے کرام کے ہاں اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جبکہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں یہ مکروہ عمل ہے۔

اسی طرح شافعی فقہائے کرام کے ہاں روزے کی حالت میں دن کے وقت خوشبو سونگھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ یہ عمل ضرورت زندگی نہیں ہے، اس لیے خوشبو نہ سونگھنا اچھا عمل ہے۔

جبکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں اگر خوشبو سفوف کی شکل میں پسی ہوئی ہو تو اسے سونگھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ ایسی خوشبو کو حلق تک پہنچنے سے روکنا بہت مشکل ہے، اسی لیے پھول، عنبر، اور کستوری جو کہ پسی ہوئی نہ ہو انہیں سونگھنا مکروہ نہیں ہے۔" ختم شد

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (37706) اور (106450) کا مطالعہ کریں۔

عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب آپ عود ہندی کو ناک کے قریب لا کر سونگھتی ہیں اور اس کا دھواں اندر لے کر جاتی ہیں تو یہ حلق تک پہنچ جاتا ہے۔

اس لیے اگر آپ اسے استعمال کرنا چاہتی ہیں تو پھر یہ فجر سے پہلے اور مغرب کے بعد استعمال کریں، ان شاء اللہ یہ کافی ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب