الحمد للہ.
اول:
عہد نبوت میں جو بچہ بھی سات سال کا ہو جاتا تھا تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ بچے کے دن کا آغاز نماز فجر سے ہوتا تھا؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنے سات سال کے بچوں کو نماز سکھائیں ۔
جیسے کہ سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں، اور دس سال کی عمر میں انہیں نماز کے لیے ماریں۔ اور ان کے بسترے الگ الگ کر دیں۔)اس حدیث کو ابو داود (494) نے روایت کیا ہے جبکہ اور ترمذی: (407) نے اسے سیدنا سبرۃ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی کہتے ہیں: "سبرہ بن معبد الجہنی کی روایت حسن ہے۔"
اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو دن میں تین کاموں میں مصروف رکھتے تھے:
پہلا کام: صحابہ کرام اپنے بچوں کو ایمان اور اسلام کی تعلیم دیتے تھے، اور اس کے لیے ہر کوئی دستیاب وسائل اور ذرائع استعمال کرتا تھا۔
چنانچہ سیدنا جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اور ہم قریب البلوغ لڑکے تھے، تو ہم نے قرآن کریم کی تعلیم لینے سے پہلے ایمان سیکھا ، پھر جب ہم نے قرآن سیکھا تو ہمارا ایمان قرآن کی وجہ سے مزید بڑھ گیا۔" اس حدیث کو ابن ماجہ : (61)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن ابن ماجہ (1 / 37 - 38) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
[حدیث کے عربی الفاظ میں لفظ:] "{ حَزَاوِرَةٌ} جو کہ { حَزْوَر} اور { حَزَوَّر} کی جمع ہے، یہ ایسے لڑکے کو کہتے ہیں جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو، لیکن قریب البلوغت ہو، اس کے آخر میں گول "ۃ" جمع کی علامت کے طور پر ہے۔" ختم شد
"النهاية في غريب الحديث" (1 / 380)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہوئے تو میری عمر اس وقت 10 سال تھی اور میں نے اس وقت تک محکم سورتیں پڑھ لی تھیں۔" اس اثر کو امام بخاری: (5035) نے روایت کیا ہے۔
محکم سورتوں سے مراد مفصل سورتیں ہیں، اور مفصل سورتیں سورۃ ق یا حجرات [اہل علم میں اختلاف ہے۔] سے سورۃ الناس تک سورتوں کو کہتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا البراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "ہمارے پاس سب سے پہلے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے، یہ دونوں ہی لوگوں کو پڑھایا کرتے تھے، پھر سیدنا بلال، سعد، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے، پھر اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ 20 صحابہ کرام کے ہمراہ مدینہ تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مدینہ تشریف لے آئے، تو اس وقت میں نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے بڑھ کر کسی کے آنے کی خوشی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر بچیوں کی زبان زد عام تھا کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے ہیں" اور میں اس وقت مفصل سورتوں میں سے سورۃ الاعلی پڑھ چکا تھا۔" اس حدیث کو بخاری: (3925) نے روایت کیا ہے۔
سیدنا البراء بن عازب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ منورہ آمد پر ابھی بچے تھے؛ کیونکہ جنگ بدر میں انہیں چھوٹے ہونے کی وجہ سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔
بچوں میں سے جو سات سال کا ہو جاتا تو بچے کے اہل خانہ اس کی پانچوں نمازوں کی ادائیگی کا خیال رکھتے تھے، جیسے کہ ابھی بیان کردہ حدیث میں گزرا ہے، مزید برآں یہ بھی ہے کہ ہر کوئی اپنی سہولت کے پیش نظر نفلی نمازوں کا بھی اہتمام کرتا تھا۔
جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "میں ایک رات اپنی خالہ کے پاس رہا، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم رات کو قیام کے لیے کھڑے ہوئے، تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بائیں جانب کھڑا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر سے مجھے پکڑا اور اپنی دائیں جانب مجھے کھڑا کر لیا۔" اس حدیث کو امام بخاری: (699) نے روایت کیا ہے۔
کچھ بچوں کو بچپن میں ہی روزہ رکھوا دیا جاتا تھا تا کہ بڑا ہونے پر روزہ رکھنا آسان ہو جائے۔
جیسے کہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ کہتی ہیں: (عاشورا کی صبح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصاریوں کے محلے میں ایک شخص کو پیغام دے کر بھیجا کہ: جس نے آج روزہ نہیں رکھا اور کھا پی لیا ہے تو وہ بقیہ دن کھانے پینے سے احتراز کرے، اور جس نے روزہ رکھا ہے تو وہ روزہ پورا کرے۔ سیدہ ربیع کہتی ہیں: تو ہم اس کے بعد سے عاشورا کا روزہ پابندی سے رکھنے لگے اور ہم اپنے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھواتے تھے، اور بچوں کے لیے اون کا کھلونا بنا دیتے، تو جب کوئی بچہ کھانے کے لیے روتا تو ہم اسے کھلونا دے دیتے تھے یہاں تک کہ افطاری کا وقت ہو جاتا تھا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1960) اور مسلم : (1136) نے روایت کیا ہے۔
کچھ بچوں کو بچپن میں ہی حج بھی کروا دیا جاتا تھا، جیسے کہ سیدنا السائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حج کروایا گیا اور میری اس وقت عمر 7 سال تھی۔" اس اثر کو امام بخاری: (1858) نے روایت کیا ہے۔
دوسرا کام: بچے اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق روزہ مرہ کے کام کرواتے تھے۔
چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کا کوئی خادم نہیں تھا، تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! انس بہت سمجھدار بچہ ہے، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ تو سیدنا انس کہتے ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دن سے سفر اور حضر دونوں میں خدمت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کبھی کسی کام کے بارے میں جسے میں نے کر لیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا؟ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جسے میں نہ کر سکا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔" اس حدیث کو امام بخاری: (2768) اور مسلم : (2309) نے روایت کیا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت شروع کی تو آپ کی عمر اس وقت 10 سال تھی۔
جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر اس وقت 10 سال تھی، تو میری نانی اور دادی مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت پابندی سے کرتے رہنے کی تاکید کرتی رہتی تھیں، اس طرح میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دس سال خدمت کی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو میں اس وقت 20 سال کا تھا۔" اس حدیث کو امام بخاریؒ: (5166) نے روایت کیا ہے۔
تیسرا کام: بچوں کو کھیل کود کے لیے وقت دینا۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "میں گڑیوں کے ساتھ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں، تو جب آپ آتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ڈر کر میری سہیلیاں چھپ جاتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں میری طرف بھیج دیتے تو وہ دوبارہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔" اس حدیث کو امام بخاری: (6130) اور مسلم : (2440) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام انسانوں میں اخلا ق کے سب سے اچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا ،میں نے کہا :اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا ۔حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا۔ تومیں چلا گیا اور راستے میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے ،پھر اچانک (میں نے دیکھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: "اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں (جانے کو) میں نے کہا تھا ؟"میں نے کہا جی! ہاں ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں جا رہا ہوں۔) صحیح مسلم: (2310)
اور ہمیں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ملی جس میں بچوں کے کھیلوں کا تذکرہ ہو، لیکن ظاہر یہی ہے کہ دورِ جاہلیت میں جو کھیل کھیلے جاتے تھے اور شریعت نے انہیں حرام قرار بھی نہیں دیا تو وہی کھیل بچے بعد میں بھی کھیلتے رہے، اس وقت قوت کا مظاہرہ کرنے والے کھیل مثلاً کشتی وغیرہ بھی بچوں میں رائج تھی، کچھ احادیث میں اس کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے۔
ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب: "المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام – طبع شدہ: دار الساقی-" (9 / 124 - 126) کے اندر اس دور میں عرب کے ہاں پائے جانے والے کھیلوں کی تفصیلات ذکر کی ہیں ۔
دوم:
صحابہ کرام کی بیویاں اللہ تعالی کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں ہی رہتی تھیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
ترجمہ: اور تم اپنے اپنے گھروں میں ٹکی رہو، اور پہلی جاہلیت کی طرح بے پردگی مت کرتی پھرو۔[الاحزاب: 33]
چنانچہ وہ کسی ضرورت کی بنا پر ہی اپنے کام کاج کے لیے گھروں سے باہر نکلتی تھیں، یا کسی نے مسجد میں نماز پڑھنی ہو تو تب مسجد میں نماز کے لیے جاتی تھیں، لیکن راستے میں اور بازار وغیرہ میں مردوں کے شانہ بشانہ نہیں چلتی تھیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا حکم وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گھروں میں ہی رہو اور بغیر ضرورت کے گھر سے باہر مت جاؤ۔"
اور شرعی ضرورت کے اندر مسجد میں دیگر شرائط پوری کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کے لیے جانا بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں جانے سے مت روکو، تاہم خواتین مسجد میں نماز کے لیے جائیں تو پراگندہ حالت میں جائیں) جب کہ دوسری روایت میں ہے کہ: (نماز کے لیے ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔) " ختم شد
"تفسير ابن كثير" (6 / 409)
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بچوں کو دینی امور پر پابندی بچپن سے ہی شروع کروا دی جائے؛ کیونکہ صحابہ کرام اپنی بچیوں کو بچپن سے ہی شرعی احکامات پر پابندی کرنے کی تربیت دینا شروع کر دیتے تھے، چنانچہ انہیں ایسے آداب سکھاتے جن سے ان میں حیا اور پاکدامنی پیدا ہو، اور اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل بھی ہو:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس آگ پر سخت دل اور مضبوط فرشتے مقرر ہیں، وہ اللہ تعالی کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور انہیں جو بھی حکم دیا جاتا ہے اسے کر گزرتے ہیں۔[التحریم: 6]
و اللہ اعلم