الحمد للہ.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (روزہ ڈھال ہے، اس لیے [روزے دار] نہ تو کوئی بیہودہ بات کرے، اور نہ ہی کوئی جاہلوں والی حرکت کرے، اور اگر کوئی اس سے لڑے یا اسے برا بھلا کہے تو دو بار کہہ دے: میرا روزہ ہے) اس حدیث کو امام بخاری: (1894) اور مسلم : (1151)نے روایت کیا ہے۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حدیث کے الفاظ " اور اگر کوئی اس سے لڑے یا برا بھلا کہے تو دو بار کہہ دے: میرا روزہ ہے" تو اس بارے میں دو موقف ہیں:
پہلا موقف: لڑنے جھگڑنے والے اور برا بھلا کہنے والے سے کہے: میرا روزہ ہے، اور روزہ مجھے تمہیں جواب دینے سے روکتا ہے؛ کیونکہ اپنے روزے کو بیہودہ گفتگو اور شریعت کے مخالف باتیں کرنے سے میں نے بچانا ہے، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو میں اپنا پورا انتقام تجھ سے لے سکتا تھا، وغیرہ ۔۔۔
دوسرا موقف: روزے دار اپنے آپ کو کہے: میرے نفس میں روزے دار ہوں، ابھی تمہارا غصہ اتارنے کے لیے میں گالی گلوچ نہیں کر سکتا۔ لہذا "میرا روزہ ہے۔" کا جملہ اونچی آواز سے نہ کہے؛ کیونکہ اس طرح تو یہ ریاکاری ہو جائے گی، اور لوگوں کو اس کے روزے کا پتہ چل جائے گا؛ کیونکہ روزہ ایسا عمل ہے کہ جو ظاہر نہیں ہوتا، اور اسی وجہ سے اللہ تعالی روزے دار کو بغیر حساب کے اجر عطا فرماتا ہے۔" ختم شد
"التمهيد" (19 / 55 - 56)
تاہم راجح موقف یہ ہے کہ یہاں زبان سے کہنا مراد ہے؛ کیونکہ حدیث میں "قول" کا لفظ آیا ہے اور حقیقی قول زبان سے تلفظ کو کہتے ہیں۔
جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کہا گیا ہے کہ: یہاں زبان سے کہنا مراد ہے کہ لڑنے والے کو کہہ دے، ممکن ہے کہ یہ جملہ سن کر وہ لڑنے سے باز آ جائے۔ ایک اور موقف یہ ہے کہ: اپنے دل میں کہے تا کہ روزے دار خود بیوقوفانہ رد عمل سے رک جائے، اور اپنے روزے کی حفاظت کر سکے، پہلا موقف راجح ہے۔" ختم شد
"الأذكار" (ص 161)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف یہ ہے کہ روزے دار اپنی زبان سے کہے، جیسے کہ حدیث کے الفاظ بھی ہیں؛ کیونکہ مطلق قول صرف زبان سے ہی ممکن ہے، جبکہ دل میں کہی جانے والی بات مطلق نہیں بلکہ مقید ہوتی ہے، مثلاً حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں: عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا اس میں گفتگو کو "انفس" کے ساتھ مقید کیا گیا ہے جس کا معنی دل میں آنے والے خیالات ہیں، پھر فرمایا: مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ یعنی: جب تک بات نہ کرے یا اس پر عمل نہ کرے۔ یہاں کلام کو مطلق رکھا گیا ہے جو کہ واضح طور پر زبان سے ہی ممکن ہے، اس لیے مطلق کلام وہی ہے جو سنی جائے۔ چنانچہ جب روزے دار اپنی زبان سے کہہ دے: میں روزے دار ہوں تو جواب نہ دینے کی وجہ واضح ہو جائے گی، اور جارحیت دکھانے والے کو جارحیت سے روکنے کا باعث بنے گا۔" ختم شد
"منهاج السنة" (5 / 197)
اور ویسے بھی حدیث کے الفاظ اور علت پر نظر دوڑانے سے محسوس ہوتا ہے کہ مخالف کو مخاطب کرنا اور بتلانا مقصود ہے تا کہ جھگڑنے سے رک جائے، تو یہاں بہتر یہی ہے کہ صرف یہی کہے کہ: "میرا روزہ ہے"
لیکن عربی زبان میں کہتے ہوئے شروع میں "اللھم" یعنی : "یا اللہ" کا اضافہ معنی نہیں بدلتا، بلکہ اس میں مزید تاکید پیدا ہو جاتی ہے، کہ اپنے روزے پر اللہ تعالی کو گواہ بنایا جا رہا ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جواب کے مطابق بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی احکامات کے متعلق پوچھنے والے آدمی کو دیا تھا:
(۔۔۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں اور سوال میرے سخت ہوں گے، اس لیے آپ میرے متعلق دل میں منفی جذبات نہ لانا:
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پوچھو ، جو تم پوچھنا چاہتے ہو!
اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اور آپ سے قبل لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالی نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اَللَّهُمَّ نَعَمْ یعنی: یا اللہ! ہاں) بخاری: (63)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں کہا: (یا اللہ! ہاں) اس جملے میں صرف "ہاں" کہنے سے جواب مل گیا تھا، شروع میں "یا اللہ" کا اضافہ تبرک کے طور پر ہے، گویا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سچائی کی تاکید کے لیے اللہ تعالی کو گواہ بنایا ہے ۔
"فتح الباری" (1 / 151)
واللہ اعلم