الحمد للہ.
اول:
اگر نماز نفل ہے تو پھر اس میں وسعت ہے؛ کیونکہ بغیر عذر کے نفل نماز توڑنا جائز ہے، تو جب عذر ہو تو بالاولی جائز ہو گا۔
یہ موقف شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے، اور یہ موقف صحیح ہے، اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلیل ہے کہ آپ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن میرے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ تو ہم نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پھر میرا روزہ ہے۔) پھر ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں پنجیری تحفے میں دی گئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے دکھاؤ کیسی ہے؟ تو فرمایا: آج میں نے روزہ رکھا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پنجیری کھائی۔) مسلم: (1154)
ایسے ہی "الموسوعة الفقهية الكويتية" (34 / 51) میں ہے کہ:
"نفل عبادت کا آغاز کرنے کے بعد اسے ختم کرنے کے حکم کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ حنفی اور مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ : نفل عبادت شروع کرنے کے بعد بلا عذر ختم کرنا جائز نہیں ہے بالکل ایسے ہی جیسے فرض کو ختم کرنا جائز نہیں ہوتا، چنانچہ جیسے فرض کو پورا کیا جاتا ہے ایسے ہی نفل کو بھی پورا کیا جائے گا؛ کیونکہ نفل بھی فرض کی طرح عبادت ہی ہے۔
جبکہ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں: حج اور عمرہ کے علاوہ نفل عبادت شروع کرنے کے بعد اسے ختم کرنا جائز ہے؛ کیونکہ ایک حدیث ہے کہ: (نفل عبادت گزار اپنے آپ کا امیر ہے) اس حدیث کو امام ترمذی نے سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے بایں الفاظ نقل کیا ہے: (نفل روزے دار اپنے آپ کا امیر ہے، یا اپنے آپ خود مختار ہے۔) لیکن پھر بھی نفل عبادت مکمل کرنا مستحب ہے۔
جبکہ حج اور عمرہ چاہے نفل ہی کیوں نہ ہوں انہیں مکمل کرنا واجب ہے؛ اگرچہ ان کے آغاز میں ہی کوئی ایسا کام ہو جائے جن سے یہ دونوں فاسد ہو جاتے ہیں، تب بھی انہیں پورا کرنا واجب ہے؛ کیونکہ نفل حج اور عمرہ بھی فرض حج اور عمرے کی طرح ہوتا ہے۔ " ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (161243 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
لیکن اگر نماز فرض ہے، تو اس کے لیے بنیادی اصول تو یہی ہے کہ جو شخص فرض عبادت شروع کرے تو کسی معتبر عذر کے بغیر اس عبادت کو توڑ نہیں سکتا۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية (34 / 51) میں ہے کہ:
"واجب عبادت شروع کرنے کے بعد بغیر کسی شرعی عذر کے توڑنا: فقہائے کرام کے متفقہ موقف کے مطابق جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کسی شرعی عذر کے بغیر عبادت توڑنا عبادت کے احترام کے منافی ہے، اور اللہ تعالی نے عبادت کو فاسد کرنے سے روکا ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ترجمہ: اور تم اپنے اعمال کو باطل مت کرو۔ [محمد: 33]
جبکہ کسی شرعی عذر کی بنا پر عبادت توڑنا: تو یہ شرعی طور پر جائز ہے، چنانچہ نماز کسی سانپ وغیرہ کو قتل کرنے کے لیے توڑنا جائز ہے؛ کیونکہ سانپ مارنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح ذاتی یا کسی اور کے قیمتی مال کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو، کسی مصیبت میں پھنسے شخص کی جان بچانی ہو، یا کسی سوئے ہوئے یا غافل شخص کی طرف سانپ جا رہا ہو اسے خبردار کرنا ہو اور یہ کام محض سبحان اللہ کہنے سے ممکن نہ ہو، ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانے کے لیے روزہ توڑنا، ایسے ہی اپنی جان کو بچانے کے لیے، یا کسی شیر خوار بچے کو بچانے کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے۔" ختم شد
زلزلہ یا سیلاب یا ایسی کوئی اور قدرتی آفت کا آنا ؛ بلا شبہ ایسا عذر ہے جس کی وجہ سے فرض نماز کو توڑنا جائز ہو جاتا ہے، بلکہ اس حالت میں تو نماز توڑنا واجب بھی ہو گا کہ نماز توڑنے سے اپنی جان، یا کسی اور کی جان بچانا ممکن ہو ، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
ترجمہ: اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ [البقرۃ: 195]
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کے مفہوم کے متعلق سلف کے مختلف اقوال ہیں ۔۔۔ حق بات یہ ہے کہ: یہاں الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا، خاص سبب کا اعتبار نہیں ہو گا، چنانچہ جس چیز کے بارے میں بھی ہلاکت کا لفظ صادق آتا ہے چاہے وہ دینی ہلاکت ہے یا دنیاوی تو وہ اس میں شامل ہے، یہی موقف ابن جریر طبری کا ہے۔" ختم شد
"فتح القدير" (1/222)
اہل علم نے ایسے متعدد عذر بیان کیے ہیں جن سے نماز توڑنا جائز ہو جاتا ہے، جبکہ حنبلی فقہائے کرام نے خود نمازی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے امور اور دیگر لوگوں کے لیے خطرے کا باعث بننے والے امور میں فرق کیا ہے۔
چنانچہ ایسے خطرات جن میں دیگر لوگوں کو خطرہ ہے تو یہ نمازی نماز توڑ کر انہیں بچائے اور پھر اپنی نماز شروع سے دوبارہ سے پڑھے گا۔
لیکن ایسا خطرہ جس میں خود نمازی کو خطرہ ہے تو یہ نماز نہیں توڑے گا بلکہ نماز کی حالت میں ہی بھاگ کر اس سے اپنے آپ کو بچائے گا، چاہے اس کے لیے قبلے کی جانب پیٹھ کرنی پڑے، یا بہت زیادہ حرکت دوڑ لگانے کی شکل میں کرنی پڑے، یہ شخص پھر بھی نما زکی حالت میں ہی ہو گا، یہ طریقہ کار اس لیے کہ آیتِ صلاۃ الخوف پر عمل ہو گا؛ کیونکہ یہ آیت محض دشمن کے خوف کے لیے مختص نہیں ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَاناً
ترجمہ: [نمازوں کی پابندی کرو] اور اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل یا سوار ہو کر نماز ادا کرو۔[البقرۃ: 239]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سورت البقرۃ کی آیت نمبر: 239 کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اگر تمہیں خوف ہو، یعنی: اگر نمازوں کی پابندی کی وجہ سے تمہیں کسی نقصان کا اندیشہ ہو کہ تمہیں دشمن کا خدشہ ہو، یا آگ یا سیلاب کا اندیشہ ہو، یا کسی بھی ایسی چیز کا اندیشہ ہو جس سے انسان کو خوف آتا ہے تو پھر پیدل یا سوار ہو کر نماز ادا کرو۔" ختم شد
اسی آیت کی تفسیر میں علامہ سعدی رحمہ اللہ صفحہ: 106 میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: اگر تمہیں خوف ہو، یہاں جس چیز سے خوف پیدا ہوتا ہے ان کا ذکر نہیں کیا گیا تا کہ خوف میں کافر، ظالم، درندے سمیت ہر قسم کی خوف ناک چیز کا خوف شامل ہو جائے ۔۔۔ پیدل یا سوار ہو کر نماز ادا کرو، تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ تم قبلہ رخ ہو یا قبلہ رخ نہ ہو۔" ختم شد
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/97)میں کہتے ہیں:
"اور اگر نمازی کو دوران نماز کسی دوسرے کی ضرورت کے لیے عملِ کثیر کرنا پڑے تو وہ نماز توڑ دے اور عملِ کثیر کرے۔
امام احمد کہتے ہیں: اگر دوران نماز دو بچوں کو لڑتے ہوئے دیکھے اور اسے خدشہ ہو کہ ایک بچہ دوسرے بچے کو کنویں میں گرا دے گا تو یہ شخص جائے اور ان کی لڑائی ختم کروا کر انہیں بچائے اور واپس آ کر اپنی نماز مکمل کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کے ہمراہ ہر وقت رہتا ہو، اور پہلا مسجد میں نماز کے لیے جائے اور نماز کھڑی ہو جائے ، پھر جب امام سجدے میں جائے تو وہ دوسرا شخص مسجد سے نکل جائے تو یہ پہلا شخص اس کی تلاش میں مسجد سے نکلے گا۔
یعنی : یہ شخص واپس آ کر نماز دوبارہ سے شروع کرے گا۔ [یعنی: وہ اپنی سابقہ نماز مکمل نہیں کرے گا، بلکہ شروع سے نماز دوبارہ پڑھے گا۔ مترجم]
اسی طرح اگر نمازی نے آگ لگی ہوئی دیکھی نمازی آگ بھجانا چاہے، یا کسی پانی میں ڈوبتے شخص کو بچانا چاہے تو اسے بچانے کے لیے جائے اور واپس آ کر نماز دوبارہ سے شروع کرے۔
اور اگر نماز کی حالت میں آگ نمازی تک پہنچ گئی، یا سیلاب کا پانی پہنچ گیا تو اس سے بچنے کے لیے بھا گ گیا، تو ایسا نمازی اپنی نماز میں ہی ہے، اور وہ صلاۃ خوف کی طرح اسے مکمل کرے گا، شروع سے نماز ادا نہیں کرے گا۔ واللہ اعلم" ختم شد
علامہ مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (3/658) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو دوران نماز ایسے کافر کو کنویں میں گرنے سے بچانا لازم ہے جسے جانی امان حاصل ہے، یہ دو اقوال میں سے صحیح ترین قول ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مسلمان کو بچانا لازم ہے، ایسا شخص نماز توڑ کر انہیں بچائے اور پھر دوبارہ شروع سے نماز ادا کرے، حنبلی فقہی مذہب کے مطابق یہ صحیح ترین موقف ہے، اگرچہ ایک قول یہ بھی ہے کہ اپنی سابقہ نماز کو ہی مکمل کر سکتا ہے۔۔۔۔
اسی طرح اس صورت میں بھی نماز توڑنا جائز ہے جب نمازی کا مقروض شخص اس کے پاس سے بھاگ جائے۔ حبیش امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ: نمازی شخص اس کی تلاش میں نماز توڑ کر چلا جائے، اسی طرح کسی ڈوبتے شخص کو بچانے کے لیے بھی نمازی کے لیے جانا جائز ہے، حنبلی فقہ کے مطابق یہ صحیح ترین موقف ہے۔" ختم شد
کسی بھی بڑے خوف اور خدشے کی صورت میں نماز توڑنے کی اس رخصت کے سلف صالحین میں سے متعدد اہل علم قائل ہیں۔
چنانچہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قتادہ کہتے ہیں: اگر چور نمازی کا لباس چوری کر کے بھاگ جائے تو نمازی چور کا پیچھا کرے اور نماز چھوڑ دے۔
امام عبد الرزاق صنعانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں سیدنا معمر کی سند سے حسن بصری اور قتادہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا، اسے خدشہ ہوا کہ اس کی سواری بھاگ جائے گی، یا اس پر کوئی درندہ حملہ کر دے گا؟ تو دونوں [سیدنا حسن اور قتادہ ] نے کہا: نماز توڑ دے۔
اسی طرح معمر رحمہ اللہ ہی قتادہ سے بیان کرتے ہیں کہ: کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھتے ہوئے کہا: اگر آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور اس نے ایک بچے کو دیکھا جو کنویں کے کنارے پر ہے، نمازی کو خدشہ ہے کہ کہیں کنویں میں نہ گر جائے، تو کیا نمازی اپنی نماز توڑ دے؟
انہوں نے کہا: جی نماز توڑ دے ۔
میں نے کہا: کسی چور کو دیکھے کہ وہ اس کی جوتیاں چوری کر کے جانے لگا ہے تو؟
انہوں نے کہا: نماز توڑ دے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ: اگر نماز کے دوران کسی سنگین چیز کا سامنا ہو تو اس سے بچاؤ کے لیے نماز توڑ دے۔ ان کا یہ موقف سفیان سے المعافی نے نقل کیا ہے۔
اسی طرح اگر اپنے جانوروں کے بارے میں اسے سیلاب کا خدشہ ہو، یا سیلاب سواری کو نقصان پہنچا سکتا ہو تب بھی نماز توڑ سکتا ہے۔
جس شخص کی سواری دوران نماز اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو اس کے بارے میں امام مالک کا موقف یہ ہے کہ: اگر سواری قریب ہی ہو ، مثلاً: سامنے ہے، یا دائیں یا بائیں ہے تو چل کر اسے پکڑ لے، اور اگر دور چلی گئی ہو تو پھر نماز توڑ کر اسے تلاش کرے۔
ہمارے فقہائے کرام کا موقف یہ ہے کہ: اگر نمازی شخص پانی میں کسی ڈوبتے ہوئے شخص کو دیکھے، یا آگ میں جھلستے دیکھے، یا دو بچوں کو لڑتے دیکھے یا اسی طرح کا کوئی اور منظر سامنے آ جائے اور وہ انہیں بچا بھی سکتا ہو تو نماز توڑ کر انہیں بچائے۔
ہمارے کچھ فقہائے کرام اس عمل کو صرف نفل تک محدود کرتے ہیں، جبکہ صحیح ترین موقف یہ ہے کہ فرض اور نفل دونوں میں یہ عمل درست ہے۔
امام احمد ایسے شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو اپنے مقروض کے ہمراہ تھا، دونوں ہی مسجد میں داخل ہوئے اور مقروض مسجد سے اس وقت بھاگا جب قرض خواہ نے نماز شروع کر دی تھی، تو یہ شخص نماز توڑ کر اس کے پیچھے جا سکتا ہے۔
امام احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ: اگر نمازی نے کسی بچے کو دیکھا کہ بچہ کنویں میں گر جائے گا، تو یہ شخص نماز توڑ کر بچے کو پکڑے۔
ہمارے کچھ فقہائے کرام کہتے ہیں: نماز توڑنے کی ضرورت اس وقت ہو گی جب مقروض یا بچے کو پکڑنے کے لیے عمل کثیر کی ضرورت ہو، چنانچہ اگر عمل معمولی سا ہو تو پھر اس معمولی عمل کی وجہ سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔
یہی موقف ابو بکر کا ایسے نمازی کے بارے میں ہے جس نے اپنی نماز توڑی اور اپنے مفرور مقروض دیکھ لیا اور اسے پکڑنے کے لیے نکلا ، تو وہ بھی واپس آ کر اپنی نماز مکمل کرے گا، شروع سے دوبارہ ادا نہیں کرے گا۔
قاضی رحمہ اللہ نے اسے اس صورت میں محمول کیا ہے کہ جب اسے پکڑنے کے لیے معمولی کام کرنا پڑے۔
تاہم اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہاں یہ کہہ دیا جائے کہ اسے اس صورت میں اپنے مال کے تلف ہونے کا خدشہ تھا، اس لیے اُس کے اِس عمل در گزر کیا گیا اگرچہ وہ عملِ کثیر ہی تھا۔" ختم شد
"فتح الباری" از : ابن رجب (9/336-337)
خلاصہ یہ ہوا کہ:
اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور زلزلہ آ جائے تو نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح آگ لگ جائے، یا کوئی بھی حادثہ رونما ہونے کی صورت میں اپنی جان، مال یا کسی اور معصوم جان یا معصوم جان کے مال کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو انہیں بچانے کے لیے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم