جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بے خوابی اور بے چینی کا علاج کرنے کے لیے آرام دہ گولیاں استعمال کرنے کا حکم

سوال

میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کسی معالج سے رجوع کیے بغیر خود ہی اپنا علاج کرنے کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ ازدواجی زندگی میں مجھے بہت ہی کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑا ہے، کیونکہ میرا خاوند میری طرف توجہ نہیں دیتا، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ قصداً ایسا کرتا ہے یا غیر ارادی طور پر اس سے ایسے ہو جاتا ہے؟ میرا خاوند ہر وقت اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر بیٹھا گیم کھیلتا رہتا ہے، یا پھر دوستوں سے بات چیت میں لگا رہتا ہے، ہم نے آج تک ایک بار بھی اکٹھے بیٹھ کر ایسے باتیں نہیں کیں جس کے درمیان میں کوئی کال نہ آئی ہو، میرا خاوند بڑی مشکل سے پورے دن میں دو گھنٹے بھی مجھے نہیں دے پاتا، گزشتہ دو سالوں میں ہمارے درمیان اس حوالے سے کئی بار جھگڑا بھی ہو چکا ہے، تاہم میں نے صبر کرنے کا فیصلہ کیا کہ میں خاموشی اختیار کر لیتی ہوں، لیکن اس کی وجہ سے مجھے ذہنی تناؤ، عدم توجہ، گھٹن اور تنہائی کا احساس ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے میں سو بھی نہیں سکتی، چنانچہ میں نے اعصابی تناؤ کو کم کرنے والی ادویات کھانا شروع کر دیں، میں جو دوا استعمال کر رہی ہوں وہ بازار میں ڈاکٹری نسخے کے بغیر ہی مل جاتی ہے، مجھے اس دوا پر کلی اعتماد ہونے لگا ہے۔ میں بہت زیادہ مایوسی اور بے چینی کا شکار ہوں لیکن جیسے ہی یہ گولیاں استعمال کرتی ہوں تو میں آرام سے نیند بھی کر لیتی ہوں اور بیداری بھی اچھے انداز سے ہو جاتی ہے، یہ گولیاں مجھے کسی معالج نے لکھ کر نہیں دیں۔ میری بے خوابی کی ایک لمبی داستان ہے، اس لیے میں ان گولیوں کو وقتاً فوقتا استعمال کرتی رہتی ہوں، ان گولیوں کا اثر 30 سے 40 منٹ کے بعد شروع ہوتا ہے، اور 4 سے 6 گھنٹے تک جاری رہتا ہے، بسا اوقات اس سے بھی طویل ہو جاتا ہے، ان گولیوں کی وجہ سے میں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح پر سکون رہتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ نشہ آور ادویات اسلام میں حرام ہیں، تو کیا ڈاکٹری نسخے کے بغیر ان گولیوں کے استعمال کی وجہ سے میری چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند کی ذمہ داری ہے کہ بیوی کے حقوق ادا کرتے ہوئے حسن سلوک، نفقہ، رہائش، جسمانی ضرورت، اور قلبی تسکین کا بھر پور اہتمام کرے، یہ تمام حقوق قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی رو سے ثابت شدہ ہیں۔

اسی طرح خاوند کے بھی بیوی پر حقوق ہیں کہ اچھا سلوک کرے، نیکی کے کاموں میں اطاعت کرے، اور جسمانی ضرورت پوری کرنے سے مت روکے، خاوند کی بھر پور خدمت کرے، اور گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے۔

یہ تمام تر حقوق پہلے ہی سوال نمبر: (10680 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔

آپ نے سوا ل میں ذکر کیا کہ آپ کا خاوند آپ پر توجہ نہیں دیتا تو اس کا علاج مفاہمت سے ممکن ہے، اس کے لیے مشترکہ سرگرمیاں زیر عمل لائیں مثلاً: اکٹھے کوئی کورس شروع کر لیں، قرآن کریم کی سورتیں یاد کرنا شروع کر دیں، فارغ اوقات میں سیر و تفریح کے لیے جائیں، اور موبائل کا استعمال کم سے کم کر دیں ، اسی طرح کی اور بھی مثبت سرگرمیاں اکٹھے کی جا سکتی ہیں۔

دوم:

نیند آور اور سکون پہنچانے والی گولیاں معتمد معالج کے مشورے سے ہی استعمال کی جا سکتی ہیں ، مشورے کے بغیر انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کچھ گولیاں نشہ آور بھی ہوتی ہیں، اور کچھ گولیاں استعمال کرنے سے انسان ان کا عادی بن جاتا ہے، اور بعض ایسی بھی ہیں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہوتا ہے۔

اس لیے اس قسم کی گولیاں اپنی ہی مرضی سے استعمال کرتے ہوئے علاج کرنا مذکورہ اسباب کی وجہ سے منع ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"نیند آور اور سکون پہنچانے والی گولیاں جنہیں پین کلر بھی کہا جاتا ہے، انہیں استعمال کرنا جائز ہے؟ کیا یہ بھی نشہ آور گولیوں میں شمار ہوں گی؟ کیا ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے، یا اگر معالج ان گولیوں کو تجویز کرے تو کیا انہیں استعمال کر سکتے ہیں؟"

تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"ان گولیوں کو ضرورت پڑنے پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ تجویز کرنے والا معالج بھی سمجھدار ہو اور حلال و حرام اشیا کے بارے میں علم رکھتا ہو؛ کیونکہ ان ادویات کے خطرناک نتائج بھی ہو سکتے ہیں اور اس کا منفی اثر دماغ پر بھی پڑتا ہے؛ کیونکہ ان گولیوں کو استعمال کرنے سے انسان وقتی طور پر تو سکون حاصل کر لیتا ہے، لیکن بعد میں نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے، بہ ہر حال ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ماہر معالج کی نگرانی میں اور اس کی اجازت سے استعمال کی جائیں۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " ( کیسٹ نمبر: 82، سائیڈ اے )

سوم:
نشہ آور مواد پر مشتمل ادویات کا بنیادی حکم ممانعت اور حرمت کا ہے، لیکن اگر علاج کا یہی واحد ایک طریقہ ہو ، اور حلال چیزوں میں سے کوئی بھی اس کا متبادل نہ ہو تو ایسی صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ ان ادویات کو استعمال کرنا جائز ہو گا:

  1. ان گولیوں کو استعمال کرنے کی مریض کو ضرورت ہو یا شدید ضرورت ہو۔
  2. معتمد مسلمان معالج اس بات کی گواہی دے کہ اس نشہ آور دوا کا مریض پر نفع اور نقصان دونوں ہیں۔
  3. مطلوبہ گولیاں صرف ضرورت کی حد تک استعمال کی جائیں۔
  4. ان گولیوں کے استعمال کی وجہ سے مریض کو زیر علاج مرض کے برابر یا اس سے بڑھ کر نقصان نہ ہو۔

اس لیے آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ اپنے زیر استعمال دوا کے بارے میں ماہر لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ کریں، اور عمومی طور پر اس دوا کو استعمال کرنے کی مقدار میں کمی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ بے چینی اور بے خوابی کا علاج شرعی اور مفید ادویات سے کریں جیسے کہ قرآن کریم پڑھیں، اللہ کا ذکر کریں، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھی بھیجیں، اس سے آپ کا دل مطمئن ہو جائے گا اور پریشانی ختم ہو جائے گی۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
 ترجمہ: ایمان لانے والے لوگوں کے دل ذکر الہی سے مطمئن ہوتے ہیں، توجہ کرو! یقیناً اللہ کے ذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔[الرعد: 28]

اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "جس وقت رات کی دو تہائی گزر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: (لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑ کھڑا نے والی آ گئی ہے اور اس کے پیچھے آنے والی بھی آ گئی ہے، موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی ہے۔ موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی ہے ) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت درود پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپ نے فرمایا: (جتنا تم چاہو) میں نے عرض کیا: "چوتھائی حصہ؟" آپ نے فرمایا: ( جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے) ، میں نے عرض کیا: "آدھا حصہ؟" آپ نے فرمایا: ( جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے) میں نے عرض کیا: "دو تہائی حصہ؟" آپ نے فرمایا: ( جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے) میں نے عرض کیا: "وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟"، آپ نے فرمایا: ( تب تو یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے )" اس حدیث کو ترمذی: (2457) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں صاحب "تحفۃ الاحوذی" کہتے ہیں:
"حدیث کے عربی الفاظ:   فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟  کا مطلب ملا علی قاری ؒ کے مطابق یہ ہے کہ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود پڑھنے کے لیے مختص کروں؟
تو اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شرح صدر اور قلبی سکون کے حصول جبکہ پریشانیوں اور تکالیف کی دوری کا بہترین ذریعہ ہے۔"

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے خاوند کی اصلاح فرمائے، اور آپ کی پریشانی کا خاتمہ فرمائے۔
اللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب