الحمد للہ.
اول:
اس بات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ کافر کی عبادت بھی اسی طرح قبول ہو جاتی ہے جیسے ایک مومن کی قبول کی جاتی ہے، تو یہ قطعی طور پر باطل بات ہے؛ کیونکہ کافر کی عبادت قبول نہیں ہوتی، بلکہ کافر کی عبادت صحیح ہی نہیں ہوتی، نہ ہی اسے آخرت میں ثواب دیا جائے گا، تاہم یہ ٹھیک ہے کہ اچھے کاموں کے بدلے میں وہ دنیاوی فائدے اٹھا لیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی اس کو دنیا میں کھلا پلا دیتا ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیں گے۔ [الفرقان:23]
ایک اور مقام پر فرمایا:
مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ جیسی ہے جسے تیز آندھی کے دن ہوا نے اڑا دیا ہو۔ یہ لوگ اپنے کیے کرائے میں سے کچھ بھی نہ پا سکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گمراہی ہے۔[ابراہیم: 18]
نیز اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
ترجمہ: اور کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل میدان میں کوئی سراب ہو جسے پیاسا پانی سمجھ رہا ہو۔ حتی کہ جب وہ اس سراب کے قریب آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ البتہ [روزِ قیامت]اس نے اللہ کو اپنے پاس پایا تو اس نے اس کا حساب چکا دیا اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔ [النور: 39]
نیز فرمایا:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: اور بلا شبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ اگر تو نے شرک کیا تو یقیناً تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور تو لازمی طور پر خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔ [الزمر: 65]
ایسے ہی فرمایا:
وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ترجمہ: اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے مرتد ہو کر کفر کی حالت میں ہی مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو گیے۔ اور یہی لوگ اہل دوزخ ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ [البقرۃ: 217]
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: ایمان کے منکر لوگوں کے اعمال ضائع ہو چکے ہیں اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہیں۔ [المائدۃ: 5]
مزید اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلءُ الْأَرْضِ ذَهَباً وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
ترجمہ: جو لوگ کافر ہوئے پھر کفر ہی کی حالت میں مر گیے تو وہ زمین بھر بھی سونا دے کر خود چھوٹ جانا چاہیں تو ان سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جنہیں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو گا۔ [آل عمران: 91]
اس مفہوم کی بہت سی مزید آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔
احادیث مبارکہ میں سے صحیح مسلم: (214) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابن جدعان دورِ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، تو کیا اس کے یہ کام اسے فائدہ دیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں اسے فائدہ نہیں دیں گے؛ کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ : اے میرے پروردگار! روزِ قیامت میرے گناہ بخش دینا۔)
اسی طرح صحیح مسلم: (2808) میں ہی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی ایک مومن پر ایک نیکی کا بھی ظلم نہیں فرماتا، اس نیکی کے عوض میں دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی دے گا، جبکہ کافر کو اللہ تعالی اس کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کے عوض کھلا دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں رہتی جس کا اسے بدلہ دیا جائے)
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم: (17/ 150) میں کہتے ہیں کہ:
"علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حالت کفر میں مرنے والے کافر کو آخرت میں کچھ بھی ثواب نہیں ملے گا، نیز اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے دنیا میں جو بھی کام کیا اس بدلہ آخرت میں نہیں پائے گا۔
اور اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالی اس کے اچھے کاموں کے عوض اسے دنیا میں ہی کھلا دیتا ہے، یعنی جن کاموں کے صحیح ہونے کے لئے نیت کی شرط نہیں ہوتی ایسے کاموں کو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کیا ہوتا ہے [ان کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے] مثلاً: صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، مہمان نوازی، اور دیگر اسی جیسے رفاہی کے کام وغیرہ۔
جبکہ مومن کے لئے اس کی نیکیاں اور نیکیوں کا ثواب روزِ قیامت کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے، بلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ اسے ملتا ہے، یہاں دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں مومن کو بدلہ ملنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے، شریعت نے اس کی صراحت کی ہے اس لیے اس پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔۔۔ البتہ اگر کوئی کافر ایسی نیکیاں کرتا ہے اور پھر وہ مسلمان بھی ہو جائے تو صحیح موقف کے مطابق اسے [اسلام سے قبل کی ہوئی]ان نیکیوں پر آخرت میں ثواب بھی ملے گا۔" ختم شد
ابن کثیر رحمہ اللہ پہلی آیت کے متعلق اپنی تفسیر ابن کثیر (6/ 103)میں لکھتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان : وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیں گے۔ [الفرقان:23] یہ روزِ قیامت ہو گا، چنانچہ جس وقت اللہ تعالی لوگوں کی نیکی اور برائی کا حساب لے گا تو کافروں کے متعلق بتلا دیا کہ ان مشرکوں کو اپنے اعمال کے بدلے وہاں کچھ بھی نہیں ملے گا جن کے بارے میں یہ سمجھتے تھے کہ یہ کارنامے ان کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوں گے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ان کارناموں میں شرعی شرائط پوری نہیں ہوں گی، یا تو ان میں اخلاص نہیں ہو گا یا پھر ان کا عمل شریعت کے مطابق نہیں ہو گا۔ اور ہر وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو، یا اللہ کے پسندیدہ دین کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل ہوتا ہے۔
اس لیے کافروں کے اعمال ان دو صورتوں سے خالی نہیں ہوں گے، اور ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں صورتیں اکٹھی ہو جائیں، تو ایسی صورت میں قبولیت کا امکان مزید کم ہو جائے گا، اسی لیے تو اللہ تعالی نے فرمایا: وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیں گے۔ [الفرقان:23] " ختم شد
الشیخ امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"کچھ کافر اپنے والدین سے نیک سلوک کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، مہمان نواز بھی ہوتے ہیں، مظلوم کی مدد، مصیبت زدہ کی اعانت وغیرہ تو ان سب کاموں سے ان کا ہدف اللہ کی رضا ہوتی ہے، اور یہ سب کام قرب الہی کا صحیح کا ذریعہ بھی ہیں اور شریعت کے مطابق بھی ہیں کہ وہ ان میں مخلص بھی ہیں، لیکن پھر بھی ان کاموں کو اللہ تعالی اس کے لئے نفع بخش نہیں بنائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیں گے۔ [الفرقان:23]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، جو کچھ انہوں نے کیا وہ برباد ہو جائے گا اور جو عمل کرتے رہے وہ بھی کالعدم ہوں گے۔ [ھود: 16]
[کفار کے اعمال کے متعلق]سورت النور میں فرمایا: أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ ترجمہ: ان کے اعمال سراب جیسے ہوں گے۔[النور: 39] ، جبکہ سورت ابراہیم میں ان کے اعمال کے بارے میں فرمایا: كَرَمَادٍ ترجمہ: راکھ جیسے ہوں گے۔[ابراہیم: 18] اس بارے میں مزید آیات بھی ہیں۔
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ثابت ہے کہ کافر اپنے اچھے اعمال مثلاً: والدین کے ساتھ حسن سلوک، مصیبت زدہ کی مدد، مہمان نوازی، مظلوم کی داد رسی اور صلہ رحمی وغیرہ کے ذریعے اللہ کی رضا چاہے تو اس قسم کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتا ہے، چنانچہ ان اعمال کے عوض انہیں اللہ تعالی کی طرف سے دنیاوی دولت، کھانا پینا، اور صحت و عافیت مل جاتی ہے، اس لیے آخرت میں ان کے لئے اللہ کے ہاں کچھ بھی بدلہ نہیں ہوگا۔
یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے بھی ثابت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کافر کو اس کے نیک عمل کے بدلے دنیا میں ہی کھلا پلا دیتا ہے، اور دنیا میں ہی اس کو ثواب دے دیتا ہے، پھر جب کافر آخرت میں آئے گا تو بدلہ لینے کے لئے اس کا کوئی عمل بھی باقی نہیں ہو گا، جبکہ مسلمان کو اللہ تعالی اس کے عمل کی وجہ سے دنیا میں بھی بدلہ دیتا ہے اور آخرت کے لئے بھی اسے محفوظ رکھتا ہے۔)
کافر دنیا میں ہی اپنے نیک اعمال کا بدلہ حاصل کر لیتے ہیں؛ اس بارے میں قرآن کریم میں واضح ہے کہ :
مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
ترجمہ: جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے ہم اسے دنیا میں سے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔ [الشوری: 20] " ختم شد
"العذب المنیر" (5/ 570)
اس بارے میں مزید کے لئے آپ سوال نمبر: (13350) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
ممکن ہے کہ کافر کی دعا بھی کبھی قبول کر لی جائے، خصوصاً جب کافر شخص لاچار ہو یا مظلوم ہو، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
ترجمہ: جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو عبادت اللہ کے لئے کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں اور جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ [العنکبوت: 65]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (63) قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ
ترجمہ: آپ کہہ دیں کہ : کون تمہیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے؟ تم اسے گڑ گڑا کر اور خفیہ طریقے سے پکارتے ہو کہ بے شک اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ [الانعام: 63- 64]
مسند احمد: (12549) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مظلوم کی بد دعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ مظلوم کی بد دعا کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی) اس حدیث کو البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ : (767) میں حسن قرار دیا ہے۔
عقیدے کا معاملہ سماجی یا عقلی کیفیت کے ساتھ منسلک نہیں ہے؛ کچھ لوگ عقیدے کے بارے میں اسی قسم کی گمراہیاں پھیلا رہے ہیں، عقیدہ در حقیقت پختہ یقین ہے ، اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے دل میں اس پختہ یقین کو بٹھانا لازمی امر ہے، چاہے انسان کے سماجی، جسمانی یا ماحولیاتی حالات جس قسم کے بھی ہوں عقیدہ لازمی چیز ہے۔
پھر یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی ضائع ہو جائے اور اسے مخصوص اسباب کی وجہ سے عمل کرنے والے کے منہ پر مار دیا جائے، مثلاً: انسان نے سنت کے مطابق وہ عمل نہیں کیا، یا عمل تو سنت کے مطابق تھا لیکن ریا کاری کے لئے کیا تھا، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کا عمل قبول ہو جاتا ہے؟!
اللہ تعالی ہمیں ظاہری اور باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
واللہ اعلم