الحمد للہ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر آغاز نبوت سے قرآن کریم کا نزول شروع ہوا، جس کی ابتدا ماہ رمضان میں لیلۃ القدر سے ہوئی ، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے۔[القدر: 1]
اور اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
حم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ
ترجمہ:حم [1] قسم ہے واضح کتاب کی [2] یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقیناً ہم متنبہ کرنے والے ہیں۔ [الدخان: 1-3]
پھر قرآن کریم کا نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے قریب تک قسط وار جاری رہا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا
ترجمہ:اور قرآن کریم کو ہم نے قسط وار نازل کیا، تا کہ آپ انہیں لوگوں پر وقفے وقفے سے پڑھیں، اور ہم نے اسے بہ تدریج نازل کیا ہے۔ [بنی اسرائیل: 106]
لیکن اس وقت ابھی روزے فرض نہیں ہوئے تھے، بلکہ روزے تو ہجرت کے بعد دوسرے سال میں فرض ہوئے ہیں، یعنی قرآن کریم کے آغاز نزول کے 15 سال بعد۔ اس لیے قرآن کریم کے نزول اور روزوں کے درمیان تعلق نہیں ہے۔
تاہم قرآن کریم، ماہ رمضان اور لیلۃ القدر میں تعلق موجود ہے؛ کیونکہ ماہ رمضان بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد یکساں طور پر مشہور و معروف تھا جیسے کہ دیگر مہینے مشہور تھے۔
لیکن لیلۃ القدر اور روزوں کے درمیان بھی ربط نہیں ہے؛ کیونکہ لیلۃ القدر رمضان کی ایک رات ہے اور رمضان کا مہینہ روزوں کی فرضیت سے قبل بھی معلوم تھا۔
لگتا ہے کہ آپ کے سوال کی وجہ یہ ہے کہ: آپ لیلۃ القدر کو روزوں سے منسلک سمجھ رہے ہیں، اور آپ کے لیے یہ واضح نہیں ہے کہ یہ رات اور مہینہ روزوں کی فرضیت سے پہلے بھی موجود تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
نزول قرآن کا آغاز رمضان میں بعثت کے پہلے سال میں ہوا تھا، اور 23 سال تک جاری رہا۔
جبکہ روزے بعثت کے بعد یعنی قرآن کریم کی پہلی وحی نازل ہونے کے تقریباً 15 سال بعد فرض ہوئے ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے 9 رمضانوں کے روزے رکھے ہیں اور ان تمام سالوں میں قرآن کریم کا نزول تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔
جیسے کہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
فرمانِ باری تعالی إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ یعنی ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے، اگرچہ اس سورت القدر میں قرآن کریم کا ذکر پہلے نہیں ہوا کیونکہ یہ واضح ہے، اور پورا قرآن کریم ایک سورت کی طرح ہی ہے۔ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزَلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔[البقرة: 185]
اسی طرح فرمایا:
حم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ
ترجمہ:حم [1] قسم ہے واضح کتاب کی [2] یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقیناً ہم متنبہ کرنے والے ہیں۔ [الدخان: 1-3] یعنی لیلۃ القدر میں۔
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم کے نزول کی ابتدا لیلۃ القدر میں کی۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ: سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے پورے قرآن کریم کو ایک بار ہی لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں بیت العزت تک اتارا اور جبریل نے محرر فرشتوں کو لکھوایا، پھر سیدنا جبریل علیہ السلام نے قرآن کریم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قسط وار نازل کیا، پہلی اور آخری وحی کے درمیان 23 سال کا عرصہ ہے۔ یہ موقف ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے" ختم شد
"تفسیر قرطبی" (20/ 129)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جنگ بدر رمضان میں دوسرے سال میں ہوئی، اور اسی میں روزے بھی فرض ہوئے تھے۔" ختم شد
"فتح الباری" (1/ 50)
واللہ اعلم