الحمد للہ.
اول:
اکثر علمائے کرام کے ہاں سورت فاتحہ مکی سورت ہے، اس سورت کے مکی ہونے پر علمائے کرام نے متعدد دلائل کو دلیل بنایا ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:
- اس موقف پر متعدد صحیح دلائل موجود ہیں، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے آپ کو بار بار پڑھی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔[الحجر:87]
اور سورت الحجر اجماعی طور پر مکی سورت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي تفسیر میں بتلایا ہے کہ اس سے مراد سورت فاتحہ ہے، اس لیے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ سورت فاتحہ مکہ میں نازل ہو چکی تھی۔
- نماز کی فرضیت مکہ میں ہوئی اور سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
بعض علمائے کرام تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سورت فاتحہ سب سے پہلے نازل ہوئی، لیکن یہ موقف ضعیف ہے،
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سورت فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔۔۔تاہم کسی کا یہ کہنا کہ سورت فاتحہ مدینہ میں ہی نازل ہوئی ہے یہ بلا شبہ غلطی ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى"(17/ 190 - 191)
سورت فاتحہ کے مکی ہونے کو محققین کی ایک جماعت نے راجح قرار دیا ہے جن میں ابن تیمیہ، ابن کثیر، ابن حجر، بیضاوی اور کواشی وغیرہ شامل ہیں۔
تفصیلات کے لیے دیکھیں کتاب: "المكي والمدني" از عبد الرزاق حسین (1/ 446 - 468)
دوم:
امام قرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (1/ 115) میں لکھتے ہیں کہ:
"اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز کی فرضیت مکہ میں ہوئی ہے، اور اسلام کی پوری تاریخ میں ایسا کہیں نہیں ملتا کہ کوئی نماز سورت فاتحہ کے بغیر ہوئی ہو، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: (سورت فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ) تو اس حدیث میں خبر دی ہے گئی نہ کہ حکم لاگو کرنے کا آغاز کیا ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
واللہ اعلم