جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عمرہ كرنے كا طريقہ

سوال

ميں عمرہ كا تفصيلي طريقہ جاننا چاہتا ہوں .

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى كے ہاں كوئي عبادت بھي اس وقت تك قبول نہيں ہوتي جب تك اس ميں دو شرطيں نہ پائي جائيں اور دوشرطيں يہ ہيں :

پہلي : اللہ تعالي كےليے اخلاص وہ اس طرح كہ اس عبادت سے اللہ تعالي كي رضا اورخوشنودي اور دار آخرت چاہي جائے اور اس ميں كسي بھي قسم كي رياكاري اور دكھلاوا شامل نہ ہو اور نہ ہي وہ عمل دنيا كے ليے كيا جائے .

دوسري شرط : اس عبادت ميں قولي اورعملي طور پر نبي صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي ہونا ضروري ہے ، اور جب تك نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي سنت كي معرفت وپہچان نہ ہو اس وقت تك نبي كريم صلى اللہ وسلم كي اتباع بھي نہيں ہو سكتي .

اس ليے جو كوئي بھي اللہ تعالى كي عبادت كرنا چاہتا ہو - چاہے وہ عبادت حج يا عمرہ ياكوئي اورعبادت ہو - اسے چاہيے كہ وہ اس ميں نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ سيكھے تاكہ اس كا وہ عمل سنت نبوي صلى اللہ عليہ وسلم كے موافق ہو .

ذيل كي سطور ميں ہم سنت نبويہ ميں وارد عمرہ كا طريقہ درج كرتے ہيں :

عمرہ مندرجہ ذيل چار اشياء پر مشتمل ہوتا ہے :

احرام ، بيت اللہ كا طواف ، صفا اور مروہ كي سعي اور سركے بال منڈانا يا چھوٹے كروانا .

اول : احرام باندھنا :

حج يا عمرہ ميں داخل ہونے كي نيت كواحرام كہا جاتا ہے .

جب كوئي شخص احرام باندھنا چاہے تو سنت يہ ہے كہ غسل جنابت كي طرح غسل كرے اور اپنا لباس اتار دے اور بہترين قسم كي خوشبو كستوري وغيرہ جو ميسر ہو سكے سر اور داڑھي ميں لگائے اور چادريں زيب تن كرے اوريہ خوشبو احرام كے بعد بھي اس كے جسم سے آتي ہو تو اسے كوئي نقصان نہيں اس ليے كہ بخاري اور مسلم شريف ميں مندرجہ ذيل حديث ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب احرام باندھنے كا ارادہ فرماتے تو جوخوشبو ملتي اسے لگاتے ، پھراس كے بعد ميں كستوري كي چمك نبي صلى اللہ عليہ وسلم كے سر اور داڑھي ميں ديكھتي . صحيح بخاري ( 271 ) صحيح مسلم ( 1190 ) .

حديث ميں الوبيص كے معني چمك ہيں .

اور احرام كے وقت عورتوں اور مردوں كے ليے غسل كرنا سنت ہے حتي كہ حائضہ اور نفاس والي عورت كے ليے بھي غسل كرنا سنت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسماء بنت عميس نفاس كو حالت ميں ہي احرام كے وقت غسل كرنے اور لنگوٹ باندھ كر احرام باندھنےكا حكم ديا تھا ديكھيں صحيح مسلم حديث نمبر ( 1209 ) .

پھر غسل كرنے اور خوشبو لگانے كے بعد احرام كا لباس زيب تن كرے اور اگر فرضي نماز كا وقت ہو تو نماز ادا كرے ليكن حائضہ اور نفاس والي عورت نماز ادا نہيں كرے گي اور اگر فرضي نماز كا وقت نہ ہو تو دو ركعت تحيۃ الوضوء كي نيت سے ادا كرلے ، نماز سے فارغ ہو كرقبلہ رخ ہو اور احرام كي نيت كرے .

يہ بھي جائز ہے كہ وہ سواري (گاڑي ) پر سوار ہونےاور كوچ كرنے تك احرام كي نيت مؤخر كرلے لھذا ميقات سے مكہ مكرمہ روانہ ہونے سے قبل احرام كي نيت كرے .

اور پھر لبيك اللھم عمرۃ كہے اور پھر وہ تلبيہ كہے جونبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا تھا اس كے الفاظ يہ ہيں :

( لبيك اللهم لبيك ، لبيك لا شريك لك لبيك ، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك ) اے اللہ حاضر ہوں ميں حاضر ہوں ، ميں حاضر ہوں تيرا كوئي شريك نہيں ميں حاضر ہوں ، يقينا نعمتيں اور تعريفات اور بادشاہي تيري ہي ہے تيرا كوئي شريك نہيں .

نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تلبيہ ميں لبيك الہ الحق كے الفاظ بھي شامل تھے ، اور ابن عمر رضي اللہ تعالى عنہ اپنے تلبيہ ميں ( لبيك وسعديك ، والخير بيديك ، والرغباء إليك والعمل )( ميں بار بار حاضر ہوں تيري رغبت اور عمل بھي تيرے ليے ) كے الفاظ زيادہ كيا كرتے تھے .

مرد كوچاہيے كہ وہ تلبيہ بلند آواز سے كہے كيونكہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : جبريل عليہ السلام ميرے پاس آئے اور مجھے حكم ديا كہ ميں اپنے صحابہ اور جو لوگ ميرے ساتھ ہيں انہيں حكم دوں كہ وہ تلبيہ بلند آواز سے كہيں . علامہ الباني رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابوداود ( 1599 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .

اور نبي صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھي فرمان ہے : سب سے بہترين حج وہ ہے جس ميں تلببہ بلند آواز سے كہا جائے اور قرباني كا خون بہايا جائے . علامہ الباني رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع ( 1112 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے .

حديث كے الفاظ العج كا معني تلبيہ بلند آواز سے كہنا اور الثج كا معني قرباني كا خون بہانا ہے .

اور عورت صرف اتني آواز سے تلبيہ كہے جواس كے ساتھ والي كو ہي سنا جائے ليكن ا گر اس كے آس پاس غيرمحرم مرد ہوں تو اسے تلبيہ اونچي آواز سے نہيں كہنا چاہيے بلكہ وہ پست آواز سے كہے كہ كسي كو سنا نہ جائے .

اور اگر احرام باندھنے والے شخص كو كسي چيز كا خوف ہو كہ وہ اسے عبادت مكمل كرنے سے روك دے گي ( مثلا بيماري يا دشمن يا روكا جانا يا كوئي اور سبب ) تو اس صورت ميں اسے احرام مشروط كرلينا چاہيے اور اس كے ليے وہ مندرجہ ذيل الفاظ كہے :

( إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني ) اگر مجھے كسي روكنے والے نے روك ديا تو جہاں مجھے روكے وہي ميرے حلال ہونے كي جگہ ہو گي .

يعني اگر مجھے بيماري يا تاخير وغيرہ ميں سے كسي مانع نے يہ عبادت مكمل كرنے سے روك ديا تو ميں اپنے احرام سے حلال ہو جاؤں گا .

اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھا كو جب انہوں نے بيماري كي حالت ميں احرام باندھنا چاہا تو انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے احرام كومشروط كرليں اور كہا كہ تم جو مستثني كروگي وہ تمہارے ليے تمہارے رب پر ہو گا . صحيح بخاري ( 5089 ) صحيح مسلم ( 1207 ) .

لھذا جب احرام كومشروط كرنےكےبعد حج يا عمرہ كرنے ميں اسے كوئي مانع پيش آجائے تواحرام كھول دے اور اس پر كوئي چيز لازم نہيں آئے گي .

ليكن جسے عبادت مكمل كرنےميں كسي مانع كا خدشہ نہ ہو تواس كے لائق نہيں كہ وہ احرام كومشروط كرے اس ليے كہ نہ تو رسول كريم صلى اللہ وسلم نے خود احرام كومشروط كيا اور نہ ہي ہر كسي كومشروط كرنے كا حكم ديا , بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھا كو بيماري كے باعث مشروط كرنے كا حكم ديا تھا .

محرم شخص كے ليے كثرت سے تلبيہ كہنا ضروري ہے خاص كرجب حالات اور جگہ ميں تبديلي ہو مثلا كسي بلند جگہ پر چڑھے يا چڑھائي سے نيچے اترے يا رات شروع ہو يا دن چڑھے ، اور تلبيہ كہنے كےبعد اللہ تعالى كي رضاو خوشنودي اور جنت طلب كرے اور اس كي رحمت سے آگ سے پناہ طلب كرتا رہے .

دوران عمرہ احرام سے ليكر طواف كي ابتدا كرنے تك تلبيہ كہنا مشروع ہے لھذا جب طواف كي ابتدا كرے تو تلبيہ كہنا ختم كردے .

- مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كے ليے غسل كرنا :

جب مكہ مكرمہ كے قريب پہنچے اور اگر ميسر ہو سكے تو اسے ميں داخل ہونے كےليے غسل كرنا چاہيے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ ميں داخل ہونے كے ليے غسل فرمايا تھا . صحيح مسلم ( 1259 )

دوم : طواف :

جب مسجد حرام ميں داخل ہو تو داياں پاؤں اندر ركھے اور مندرجہ ذيل دعا پڑھے :

( بسم الله ، والصلاة والسلام على رسول الله ، اللهم اغفر لي ذنوبي ، وافتح لي أبواب رحمتك ، أعوذ بالله العظيم ، وبوجهه الكريم ، وبسلطانه القديم من الشيطان الرجيم ) اللہ تعالى كے نام سے اور اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود وسلام ہو ، اے اللہ ميرےگناہ بخش دے اور ميرے ليے اپني رحمت كے دروازے كھول دے ، ميں عظيم اللہ اور اس كے عزت والے چہرے اور اس كي قديم بادشاہي كے ساتھ شيطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں .

پھر حجراسود كي جانب جائے اور دائيں ہاتھ سے اس كا استلام كرے اور اس كا بوسہ لے اور اگر بوسہ لينا مشكل ہو تو اپنےہاتھ سے حجر اسود كو چھوكر ہاتھ كا بوسہ لے لے ( حجر اسود كوہاتھ سے چھونے كانام استلام ہے ) اور اگر استلام كرنا بھي ممكن نہ ہو تو حجر اسود كي جانب رخ كركے اس كي جانب اشارہ كركے تكبير كہے اور ہاتھ كو نہ چومے .

حجر اسود كا استلام كرنے ميں بہت فضيلت ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :

اللہ تعالى روز قيامت حجر اسود كو لائے گا تو اس كي دو آنكھيں ہونگي ان سے ديكھے گا اور زبان ہو گي جس سےبات كرےگا اور جس نے بھي اس كا حقيقي استلام كيا ہو گا اس كي گواہي دےگا . علامہ الباني رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب والترھيب ( 1144 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .

اور افضل يہ ہے كہ وہ دھكم پيل نہ كرے اور باقي لوگوں كو تكليف واذيت نہ دے كيونكہ حديث ميں ہےكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضي اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا :

اے عمر تو قوي وطاقتور شخص ہے حجر اسود پربھيڑ نہ كر كيونكہ كمزور وناتواں كو تكليف دےگا , اگر فرصت پاؤ تو اس كااستلام كرلو وگرنہ اس كي جانب رخ كركے تكبير كہ لو . مسند احمد (191)علامہ الباني رحمہ اللہ نے مناسك الحج والعمرۃ ( 21 ) ميں اسے قوي كہا ہے .

پھردائيں جانب چلے اور بيت اللہ كواپني بائيں جانب ركھے اور جب ركن يماني ( يہ حجر كى بعد تيسرا كونہ ہے ) كا استلام كرے ركن يماني كا نہ توبوسہ لے اور نہ ہي وہاں تكبير كہے اور نہ اشارہ كرے اوراگر اس كااستلام بھي نہ كرسكےيعني اسےہاتھ نہ لگا سكے تووہاں سےآگے چل دے اوراس پر رش نہ كرے ، ركن يماني اورحجر اسود كے درميان مندرجہ ذيل دعا پڑھے :

ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب الناراے ہمارےرب ہميں دنيا ميں بھي نيكي عطا فرما اور آخرت ميں بھي بھلائي عطا فرما اور ہميں آگ كے عذاب سے نجات دے . سنن ابوداود ، علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابوداود ( 1666) ميں اسے حسن قرار دياہے .

جب بھي حجراسود كےپاس سے گزرے تواس كے سامنےآكرتكبير كہے، اور باقي طواف ميں اسے جودعا پسند ہو وہ كرے يااللہ كا ذكر كرے اور ياپھر قرآن مجيد كي تلاوت كرے كيونكہ طواف اللہ تعالي كے ذكر كے ليے بنايا گيا ہے .

اور مرد كےليے اس طواف ميں دوچيزيں كرنا ضروري ہيں :

اول : ان ميں سے ايك تو اضطباع ہے يہ طواف كي ابتدا سے ليكر اس كے اختتام تك ہوگا ، اضطباع يہ ہے كہ مرد اپنا داياں كندھا ننگا كرلےوہ اس طرح كہ چادر كا درميانہ حصہ اپنے دائيں كندھے كےنيچے ركھےاور دونوں كنارے بائيں كندھے پرہوں ، اور جب طواف مكمل كرلے توچادر كوطواف سے پہلے والي حالت ميں ہي كرلے كيونكہ اضطباع صرف طواف كے ليے ہے .

دوم : دوسري چيز طواف كے پہلے تين چكروں ميں رمل كرنا ضروري ہے ، رمل يہ ہےكہ چھوٹےچھوٹے قدموں كےساتھ تيز تيز چلا جائے ، اور باقي چار چكروں ميں رمل نہيں بلكہ وہ عام عادت كے مطابق ہي چلے .

جب طواف كےسات چكر پورےكرچكے تواپنا داياں كندھا ڈھانپ لے اور مقام ابراہيم كي جانب جائے اور يہ آيت پر ( وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى اور مقام ابراہيم كو نماز كي جگہ بناؤ ، پھر مقام ابراہيم كے پيچھے دوركعت ادا كرے پہلي ركعت ميں سورۃ فاتحہ كے بعد سورۃ الكافرون قل يا ايھاالكافرون اور دوسري ركعت ميں سورۃ فاتحہ كےبعد قل ھواللہ احد پڑھے ، پھر نماز سے فارغ ہو كرحجر اسود كےپاس جائے اور اگر ميسرہو سكے تو اس كا استلام كرے ، يہاں صرف استلام كرنا ہي مشروع ہے ، اوراگر استلام كرنا ممكن نہ ہو تو وہاں سے چل نكلے اور حجراسود كي جانب اشارہ نہ كرے .

سوم : سعي

پھر سعي كرنے كےليے صفا مروہ كي جانب جائے اور يہ آيت پڑھے إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِيقينا صفااور مروہ اللہ تعالي كي نشانيوں ميں سے ہيں ، اور يہ كہے ہم وہاں سے ابتدا كرتےہيں جہاں سے اللہ تعالي نےابتدا كي ، اور پھر صفا پر چڑھے حتي كہ كعبہ نظر آنے لگے اور قبلہ رخ ہو كرہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالي كي حمدوثنا بيان كركے جوچاہے دعا كرے ، يہاں پر رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہ دعا كيا كرتے تھے : ( لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده ) اللہ تعالي كے سوا كوئي عبادت كےلائق نہيں وہ اكيلا ہے اس كا كوئي شريك نہيں ، اسي كے ليے ملك ہے اسي كے ليے تعريف ، وہي زندہ كرتا ہے اور مارتا ہے، اور وہ ہرچيز پر قادر ہے، اللہ تعالي كے سوا كوئي عبادت كے لائق نہيں وہ اكيلاہے جس نے اپنا وعدہ پورا كيا اور اپنےبندے كي مدد فرمائي اور تنہا ہي تمام جماعتوں كو شكست دي . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 )

يہ تين بار دھرائے اور اس كے مابين دعا بھي كرے يعني وہ مندرجہ بالا كلمات كرنے كے بعد دعا كرے اور پھر دوسري بار يہي كلمات ادا كركے دعا كرے اور پھر تيسري بار كلمات ادا كركے مروہ كي جانب روانہ ہو جائے اور تيسري بار يہ كلمات ادا كرنے كے بعد دعا نہ كرے .

اور جب سبز ستونوں كےپاس پہنچے تو حسب استطاعت تيزي سے دوڑ لگائےاور كسي دوسرے كوتكليف واذيت نہ دے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے صفا مروہ كےمابين سعي كي اور فرمايا: ابطح دوڑے بغير طے نہ كي جائے سنن ابن ماجہ علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابن ماجہ ( 2419 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .

اور ابطح وہ مسافت ہے جو اس وقت دو سبز ستونوں كےمابين ہے .

جب دوسرےسبز ستون كے پاس پہنچے تو عام حالت ميں چلنا شروع كردے حتي كہ مروہ پر پہنچ جائے اور مروہ پرچڑھنے كے بعد قبلہ رخ ہو اور ہاتھ اٹھا كروہي كلمات كہے جو صفا پر كہے تھے اور پھر مروہ سے نيچے اترنے كے بعد چلنے والي جگہ پر چلے اور دوڑنے والي جگہ پر دوڑ لگائے، اور جب صفا پر پہنچے تو جس طرح پہلے كيا تھا اسي طرح اس بار بھي كرے، اور اسي طرح مروہ پر حتي كہ سات چكر مكمل كرے، اس كا صفا سے مروہ جانا ايك چكر اور مروہ سے صفا واپس آنا دوسرا چكر ہے ، سعي كرنے والااپني سعي ميں جوچاہے دعا كرسكتا ہے اور قرآن كي تلاوت بھي كرسكتا ہے .

تنبيہ :

فرمان باري تعالي : إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِيقينا صفااور مروہ اللہ تعالي كي نشانيوں ميں سےہيں، يہ آيت سعي كرنے والا صرف اس وقت پڑھےگا جب وہ سعي كےليے صفا كے قريب پہنچے اور صرف سعي كي ابتدا ميں پڑھي جائے گي، ہربار صفا پر آنے كے وقت يہ آيت پڑھني مستحب نہيں جيسا كہ بعض لوگ كرتے بھي ہيں .

چہارم : سرمنڈانا يا بال چھوٹے كروانا :

جب سعي كے سات چكر مكمل كرچكے تومرد اپنے پورے سر كومنڈائے، يا پھر اپنے بال چھوٹے كروائے .

پورے سر كومنڈوانا ضروري ہے اور اسي طرح پورے سركےہرجانب سے سب بال چھوٹے كروانا ضروري ہيں ليكن سر منڈانا افضل ہے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے سرمنڈانے والوں كے ليے تين بار اور بال چھوٹے كروانے والوں كے ليے ايك بار دعافرمائي ہے . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1303 ) .

ليكن عورت اپنے بال انگلي كے ايك پورے جتنے بال كاٹےگي .

تواس طرح عمرہ كے اعمال مكمل ہوچكے تواس طرح عمرہ احرام ، طواف ، سعي اور سرمنڈانا يا بال چھوٹے كروانے كوعمرہ كہا جائے گا.

اللہ تعالي سے ہماري دعاہے كہ وہ ہميں اعمال صالحہ كرنے كي توفيق عطا فرمائے، اور ہمارے اعمال قبول فرمائے يقينا وہ قريب اور دعائيں قبول كرنے والا ہے .

ديكھيں : كتاب مناسك الحج والعمرۃ للالباني , اور كتاب صفۃ الحج والعمرۃ وكتاب المنھج لمريد الحج تاليف ابن عثيمين رحمہم اللہ تعالي .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب