الحمد للہ.
اصل تو يہى ہے كہ دعا كرنے والا دعاء كے وقت ہاتھ اٹھائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى شرم و كرم والا ہے، جب اس كى طرف آدمى ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ انہيں خالى واپس كرنے سے شرماتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3556 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس حديث ميں دعاء كے ليے ہاتھ اٹھانے كا استحباب پايا جاتا ہے، اور اس سلسلہ ميں بہت سى احاديث ہيں. اھـ
ليكن خطيب كے متعلق وارد ہے كہ جمعہ كے دن جب وہ منبر پر دعا كرے تو صرف انگشت شھادت سے اشارہ كرے، اور ہاتھ نہ اٹھائے، بلكہ بعض صحابہ كرام نے تو دعاء ميں ہاتھ اٹھانےوالے خطيب پر انكار كيا ہے.
مسلم اور ابو داود ميں عمار بن رويبہ سے روايت ہے كہ انہوں نے بشر بن مروان كو منبر ہاتھ اٹھائے ہوئے ديكھا ( ابو دواد كى روايت ميں يہ زيادہ ہے كہ: وہ جمعہ كے دن دعا كر رہا تھا ) تو انہوں نے كہا:
( اللہ تعالى ان ہاتھوں كو قبيح بنائے، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا كہ وہ اپنے ہاتھ سے اس طرح كہتے اس سے زيادہ نہيں كرتے تھے،اور انہوں نے اپنى انگشت شھادت كى طرف اشارہ كيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 874 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1104 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں ہے كہ: سنت يہ ہے كہ دوران خطبہ دعاء ميں ہاتھ نہ اٹھائيں جائيں، امام مالك اور ہمارے اصحاب كا قول يہى ہے. اھـ
اور تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
يہ حديث مبر پر دوران دعاء ہاتھ اٹھانے كى كراہت پر دلالت كر رہى ہے. اھـ
اور جب خطيب كے ليے ہاتھ اٹھانے مشروع نہيں، تو پھر مقتدى بھى اس كى طرح ہے، كيونكہ وہ اس كى اقتدا ميں ہے.
ليكن جب امام جمعہ كے دن منبر پر بارش كى دعا مانگے تو ہاتھ اٹھانے سنت ہيں، اور اسى طرح اس كے ساتھ مقتدى بھى ہاتھ اٹھائيں.
بخارى اور مسلم نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں لوگوں كو قحط سالى كا سامنا ہوا، ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے كہ ايك اعرابى شخص آيا اور كہنے لگا:
اے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم مال اور جانو ہلاك ہو رہے ہيں، اور بچے بھوكے ہيں، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعاء كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے ( بخارى ميں تعليقا يہ الفاظ زيادہ ہيں: اور بيھقى نے اسے موصول بيان كيا ہے: لوگوں نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ہاتھ اٹھا كر دعا كى ) آسمان ميں ہم كوئى بادل كا ٹكڑا نہيں ديكھ رہے تھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ نيچے بھى نہيں كيے تھے كہ بادل پہاڑوں كى مانند چھا گئے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابھى منبر سے نيچے بھى نہيں اترے تھے كہ ميں ديكھا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى داڑھى سے بارش كے قطرے گر رہے تھے، وہ سارا دن بارش ہوتى رہى اور پھر آنے والے اور اس كے بعد والے دن بھى حتى كہ دوسرے جمعہ تك بارش جارى رہى.
تو وہى يا كوئى اور اعرابى كھڑا ہو كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم عمارتيں گرنا شروع ہو گئى ہيں، اور مال جانور غرق ہو رہا ہے، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعاء كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اٹھا كر دعاء كى:
اللہم حوالينا، و لا علينا،
اے اللہ ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہيں.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہاتھ سے جس طرف بھى اشارہ كرتے اس طرف سے بادل چھٹ جاتے، اور مدينہ گول گڑھے كى مانند ہو گيا، اور وادى قناۃ ايك ماہ تك بہتى رہى، جو كوئى بھى كنارے سے آتا وہ موسلا دھار بارش كا ذكر كرتا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 933 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 897 ).
سنۃ: يعنى خشك سالى.
قزعۃ: بادل كے مختلف ٹكڑے.
سلع: مدينہ ميں ايك معروف پہاڑ كا نام ہے.
مثل الترس: يعنى گول.
الجوبۃ: گول اور وسيع گڑھے كو كہتے ہيں، اس سے مراد يہ ہے كہ بادل چھٹ گئے اور مدينہ كے ارد گرد بارش ہوتى رہى.
الجود: موسلا دھار بارش.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
جمعہ كے دن دوران خطبہ دعا كے ليے ہاتھ اٹھانے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
جمعہ كے دن دوران خطبہ ہاتھ اٹھانے مشروع نہيں، جب بشر بن مروان نے خطبہ جمعہ ميں دعاء كے ليے ہاتھ اٹھائے تو صحابہ نے اس كا انكار كيا تھا.
ليكن اس سے بارش كے ليے دعاء كو مستثنى كيا جاتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بارش كے ليے دعاء كرتے ہوئے خطبہ جمعہ ميں ہاتھ اٹھائے تھے، اور لوگوں نے بھى آپ كے ساتھ ہاتھ اٹھائے.
اس كے علاوہ خطبہ جمعہ ميں دعاء كے وقت ہاتھ نہيں اٹھانے چاہيں. اھـ
ديكھيں: فتاوى اركان اسلام ( 392 ).
واللہ اعلم .