جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا ملازمین کی نگرانی اور ان کی رپورٹیں اوپر پہچانا ممنوعہ تجسس ہے؟

320714

تاریخ اشاعت : 22-01-2022

مشاہدات : 2086

سوال

شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ ایک شخص کو افسران بالا کی جانب سے آفیشل کہا جاتا ہے کہ وہ مناسب کارکردگی نہ دکھانے اور اختیارات سے باہر نکلنے والے ملازم کے بارے میں رپورٹ پیش کرے، کیا یہ کام دوسروں کو نقصان پہنچانے کے زمرے میں آئے گا یا ادارے کی جانب سے سپرد کی گئی ذمہ داری میں آئے گا؟

الحمد للہ.

ملازمین کی نگرانی کرنے کا حکم

مزدوروں کی نگرانی کی ذمہ داری لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی ان کی کام سے متعلق غلطیوں اور کوتاہیوں کی اطلاع دینے میں کوئی حرج ہے، البتہ یہ ہے کہ جو کام وہ خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بارے میں جاسوسی نہ کی جائے؛ کیونکہ جاسوسی کرنا منع ہے۔

جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ 
 ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں ، جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تم تو اسے ناپسند کرتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ [الحجرات: 12]

اسی طرح بخاری: (5144) اور مسلم: (2563) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو گمانوں سے بچاؤ؛ کیونکہ گمان جھوٹی ترین بات ہوتی ہے، جاسوسی مت کرو، کسی کی خبریں مت اکٹھی کرو، باہمی بغض نہ رکھو، اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ)

ایک اور روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے ایسے لوگوں کی جماعت! جو اپنی زبان سے مسلمان تو ہو چکے ہو لیکن ایمان ابھی تک ان کے دلوں تک نہیں پہنچا، تم مسلمانوں کو زبانی اذیت مت پہنچاؤ، نہ ہی انہیں عار دلاؤ، نہ ہی ان کی خامیوں کی ٹوہ میں لگے رہو؛ کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کی خامیوں کی ٹوہ میں لگے تو اللہ تعالی اس کی خامیوں کی ٹوہ میں رہتا ہے، اور جس کی ٹوہ میں اللہ تعالی ہو تو اللہ تعالی اسے ضرور رسوا کرتا ہے چاہے وہ اپنے گھر کے عین بیچ میں کیوں نہ ہو۔) اس حدیث کو امام ترمذی: (2032) اور ابو داود: (4880) نے روایت کیا ہے۔

علامہ سفارینی رحمہ اللہ "غذاء الألباب" (1/ 263) میں لکھتے ہیں:
"رعایہ کتاب میں ہے کہ: جو غلطی چھپ کر کی گئی ہو اسے سامنے لانا حرام ہے، مشہور موقف یہی ہے۔۔۔
اسی طرح حجاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: پردہ پوشی میں گناہ کرنے والا : وہ شخص ہوتا ہے جو ایسی جگہ غلطی کرتا ہے جہاں موجودہ لوگوں کے علاوہ عام طور پر کسی کو علم نہیں ہوتا، پھر وہ اسے چھپا کر بھی رکھے اور کسی سے بیان بھی نہ کرے۔
لیکن اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ غلطی کرے جہاں اس کے پڑوسیوں کو اس کا علم ہو، چاہے وہ اپنے گھر میں ہی غلطی کرتا ہو، تو ایسا شخص اعلانیہ گناہ گار ہے، یہ پردہ پوشی میں گناہ کرنے والا نہیں ہے۔" ختم شد

ملازمین کی باتیں خاموشی سے سن کر آگے پہنچانے کا حکم

ملازمین کی کالیں سننا، یا ان کے زیر استعمال کمپیوٹر وغیرہ چیک کرنا، یا ان کے ذاتی سامان کی اجازت کے بغیر تفتیش کرنا وغیرہ سب کام حرام تجسس میں آتے ہیں۔

لیکن کسی اعلانیہ کیے گئے کام کے بارے میں بتلانا کہ فلاں ملازم دوران ڈیوٹی سو جاتا ہے، یا کام نہیں کرتا بلکہ بیٹھا ہی رہتا ہے، یا لیٹ آتا ہے، یا وقت سے پہلے چلا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر حرکتوں کی اطلاع دینا تو یہ حرام تجسس میں شامل نہیں، ان کی اطلاع دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تاہم ان کی باہمی باتوں کو ادارے میں پہنچانے سے بچنا چاہیے؛ کیونکہ یہ چغل خوری میں شامل ہو جائے گا۔

جس شخص کی اس کام پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے غلط بیانی سے بچے اور سچ بولے، بلکہ رپورٹ آگے پہنچانے سے قبل ملازم کو اچھے طریقے سے نصیحت کر دے، تا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعا کا مصداق بن سکے، جو کہ امام مسلم: (1828) نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یا اللہ! میری امت کے کسی کام کا کوئی ذمہ دار بنے اور وہ ان پر سختی کرے تو ، اللہ ! تو اس پر سختی فرما۔ اور جو شخص میری امت کے کسی کام کا ذمہ دار بنے اور وہ ان پر نرمی کرے تو ، اللہ! تو بھی اس پر نرمی فرما۔)

ایک بار شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میں ایک ادارے میں بطور نگران اور انچارج کام کر رہا ہوں، ملازمین کی نگرانی میری ذمہ داری میں شامل ہے، ادارے کے مالک کے سامنے ماہانہ رپورٹ پیش کرتا ہوں، اور اس رپورٹ میں وضاحت کرتا ہوں کہ فلاں شخص غیر حاضر ہے، یا لیٹ ہوا ہے، یا فلاں کام میں غلطی کی ہے، میں مالک کے سامنے ساری وضاحت کر دیتا ہوں تا کہ اسے خرابی کا علم ہو اور اس کی درستگی کے لیے اپنی صوابدید پر اقدامات کرے۔ کیا مجھے اس کام پر گناہ ملے گا؟ حالانکہ میں ملازمین کو پہلے متنبہ کر دیتا ہوں کہ آپ اپنی حالت سدھار لیں، وگرنہ میں مالک کو بتلانے پر مجبور ہو جاؤں گا، لیکن میری تنبیہ ان کے لیے کوئی سود مند نہیں ہوتی، مجھے میرے کام کے بارے میں حکم بتلائیں۔"

تو ابن عثیمین رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ:
"سائل کا کام اور طریقہ کار بہت ہی عمدہ ہے، اس پر انہیں ضرور اجر ملے گا۔ یہی امانت داری کا تقاضا بھی ہے کہ کسی کی طرفداری سے کام نہ لے، سائل کو اللہ تعالی جزائے خیر دے کہ پہلے وہ ملازمین کی خیر خواہی کرتا ہے، چنانچہ اگر کوئی اپنے آپ کو سدھار لے تو رپورٹ نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی پھر بھی نہ سدھرے تو اوپر رپورٹ پہنچا دیتا ہے، در حقیقت یہی اس کی ذمہ داری ہے، میں تو اس کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اسے اجر عطا فرمائے اور اس کی مدد بھی فرمائے، اور اس جیسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے؛ کیونکہ ایسے لوگ ہمارے دور میں بہت ہی تھوڑے ہیں، وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ ہر شخص شرماتا ہے اور حیا محسوس کرتا ہے کہ کسی کا رزق میری وجہ سے بند نہ ہو، یا اسی طرح کی معمولی وجوہات ہوتی ہیں، حالانکہ یہ تمام باتیں غلط ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی حق بات کرنے سے نہیں شرماتا، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنی کوتاہی کی بنا پر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو یہ اسی کی اپنی کی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (24/ 2)، مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب