سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بعض نیکیوں پر جنت میں گھر کے وعدے کا کیا فائدہ ہو گا؟

سوال

ایک حدیث ہے: (جو شخص ایک دن میں بارہ رکعات ادا کرتا ہے اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے) لیکن قرآن کہتا ہے کہ اہل جنت من چاہی نعمتیں حاصل کریں گے، تو کیا حدیث میں مذکور قرآن کی آفر سے متصادم نہیں ہے؟ تو جب ہم کہتے ہیں کہ: ہم پر یہ ، یہ کام کرنا لازم ہے تا کہ اللہ تعالی ہمیں فلاں ، فلاں چیز عطا فرمائے ، لیکن اللہ تعالی نے تو ہمیں یہ بتلا دیا ہے کہ ہمیں جنت میں ہر من چاہی چیز ملے گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

متعدد نیکیاں ایسی ہیں جنہیں کرنے والوں کو جنت میں گھر کی صورت میں بدلہ دیا جائے گا۔

جیسے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص ایک دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھے تو اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے۔) مسلم: (728)

ایسی احادیث کے بارے میں مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ انہیں اللہ تعالی کے فرمان سے متصادم سمجھے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ * نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ترجمہ: یقیناً جن لوگوں نے کہا: ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ پھر اس پر ڈٹ گئے، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم خوف نہ کھاؤ نہ ہی غم کرو، بلکہ تم سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی خوش خبری سن کر خوش ہو جاؤ٭ ہم تمہارے دنیا اور آخرت کی زندگی میں دوست ہیں، اور تمہارے لیے آخرت میں وہ کچھ ہے جو تمہارا من چاہے گا، اور تمہیں وہاں وہ کچھ ملے گا جو تم مانگو گے۔[فصلت: 30 - 31]

وہ اس طرح کہ جب جنت میں داخل ہونے والے کو سب کچھ ملے گا تو اب وہ جنت میں جا کر جتنے مرضی گھروں کی تمنا کر لے، اب اسے روزانہ 12 رکعات سنت مؤکدہ کی پابندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ : جب اللہ تعالی نے نیکیوں کے بدلے میں جزا دینے کا یہ انداز اپنایا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہو گی، اور جب ہمیں اللہ تعالی کی حکمت، فضل، اور عدل پر اعتماد ہے تو ہمیں ایسے سوال نہیں اٹھانے چاہییں۔

کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
ترجمہ: اللہ جو کرتا ہے اس کے متعلق اللہ سے نہیں پوچھا جاتا، لیکن مخلوقات کی باز پرس ہو گی۔[الانبیاء: 23]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز کا خالق ، پروردگار اور مالک ہے، اللہ تعالی کی تخلیقِ مخلوق میں حکمتیں ہیں، ڈھیروں نعمتیں ہیں، عمومی اور خصوصی رحمتیں ہیں، اللہ کے کاموں پر اللہ سے پوچھا نہیں جاتا، مخلوقات اپنے کاموں کی جوابدہ ہوں گی، اس لیے نہیں کہ اللہ تعالی کی ذات صرف قدیر اور قہار ہے، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالی کا علم، قدرت ، رحمت اور حکمت کامل ترین ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (8 / 79)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی ذات حکمت بھری ذات ہے وہ کوئی بھی کام بغیر حکمت کے نہیں کرتی، اللہ تعالی کا کوئی بھی کام بے مقصد اور بغیر مصلحت کے نہیں ہوتا، اللہ تعالی کی حکمتیں ہر فعل کی غرض و غایت ہوتی ہیں، بلکہ اللہ تعالی کا ہر فعل کامل ترین درجے کی حکمت کی بنا پر صادر ہوتا ہے اسی لیے اس کا ہر عمل حکمت بھرا ہوتا ہے، نیز وہ حکمت کچھ اسباب کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جن کی وجہ سے وہ فعل صادر ہوتا ہے۔ کلام الہی اور کلام رسول دونوں میں ان چیزوں پر اتنی جگہوں میں گفتگو موجود ہے کہ انہیں شمار کرنا اور انہیں الگ الگ بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔۔۔" ختم شد
"شفاء العليل" (ص 190)

ممکن ہے کہ جنت میں گھر ملنے کے وعدے میں درج ذیل حکمتیں ہوں:

پہلی: کسی ایک نیک کام پر بدلہ مختص کر دینے سے انسان کو وہ نیک کام کرنے کی رغبت حاصل ہوتی ہے اور انسان کا دل وہ نیک کام کرنے پر مزید مطمئن ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس میں محض جنت کے داخلے کی بجائے اضافی اجر مل رہا ہے کہ وہ جنت میں اس مخصوص نیکی کے مزے بھی لے گا، اس طرح دل میں نیکی کی مزید رغبت پیدا ہوتی ہے۔

دوم: یہ ممکن ہے کہ ان گھروں کی ایسے گھروں سے امتیازی حیثیت ہو جن کی مومن جنت میں تمنا کرے گا، جیسے کہ اہل علم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق کہا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص اللہ تعالی کے لیے مسجد بنائے، تو اللہ تعالی اس کے اسی جیسا گھر جنت میں بنا دیتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (450) اور مسلم : (533) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور لفظ "اسی جیسا" کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا سائز اتنا ہو گا، یا اس کی عمارت کی ساخت دنیاوی مسجد جیسی ہی ہو گی، بلکہ اس کا مطلب -واللہ اعلم- یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کی عمارت کو اپنی شان کے مطابق وسیع کرے گا، اور اس کی مضبوطی بھی اپنی شایان شان بنائے گا، محض نقش و نگار بنانا یہاں مراد نہیں ہے۔ پھر جنت میں اس کے لیے جو کچھ بھی بنایا جائے گا اس سے مکمل مستفید ہو گا جیسے لوگ اس کی دنیا میں بنائی ہوئی مسجد سے مستفید ہوئے، پھر جنت کے گھر کو اسی طرح سب سے اعلی اور معزز مقام ملے گا جیسے دنیا میں مسجد کو دیگر تمام جگہوں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے ۔۔۔ " ختم شد
"فتح الباری" (3 / 320 - 321)

تو اس طرح یہ گھر تو صرف مخصوص اعمال کے عوض ہی حاصل ہو سکتے ہیں، چنانچہ ان کا تعلق ان نعمتوں سے نہیں ہے جو مومن کو جنت میں محض تمنا کرنے پر حاصل ہو جاتی ہیں۔

سوم: مومن کو اگرچہ جنت میں من چاہی چیزیں ملیں گی، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہ مخصوص اس طرح کے گھر کی چاہت کرے گا یا نہیں؟

کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اس کے دل سے ہی ایسی نعمت کا خیال تک ختم کر دیا جائے اور وہ ایسی نعمت کا تصور بھی نہ کر سکے!

اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اہل جنت بھی جنت کے مختلف درجات میں ہوں گے، چنانچہ کوئی بھی نچلے درجے والا اونچے درجے والے کا درجہ طلب نہیں کر سکے گا۔ وگرنہ تو پھر یہ لازم آئے گا کہ اہل جنت سارے کے سارے یکساں نعمتوں میں ہوں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب