الحمد للہ.
اول:
قسم توڑنے کا حکم
جو شخص قسم اٹھائے اور پھر قسم سے رجوع کرنا چاہے تو اس کے لیے رجوع کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کسی حرام کام کا ارتکاب نہ ہو، اور اسے قسم کا کفارہ بھی دینا ہو گا۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کی قسم ، اگر اللہ نے چاہا تو میں کبھی کسی کام کی قسم اٹھا لوں اور مجھے کسی اور کام میں بھلائی نظر آئے تو کفارہ دے کر میں اپنی قسم توڑ لوں گا ، اور وہی کام کروں گا جو بہتر ہو گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6718) اور مسلم : (1649) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے عبد الرحمن بن سمرہ! تم امارت مت طلب کرنا، کیونکہ اگر امارت تمہیں مانگنے پر دی گئی تو تمہیں تنہا امارت کے سپرد کر دیا جائے گا، اور اگر تمہیں امارت بن مانگے دی جائے تو تمہاری مدد بھی کی جائے گی۔ اور اگر کسی کام کو کرنے کی قسم اٹھا لو اور تمہیں کسی دوسرے کام میں خیر نظر آئے تو پھر اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہی کام کرو جو بہتر ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6622) اور مسلم : (1652) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کام کو کرنے کی قسم اٹھا لے پھر کسی دوسرے کام میں اسے بھلائی نظر آئے تو وہ وہی کام کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔) مسلم: (1650)
علامہ نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم: (11/108) میں لکھتے ہیں:
"ان احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کر کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لے اور قسم پوری کرنے کی بجائے توڑنے میں اس کے لیے بھلائی ہو تو اس کے لیے قسم توڑنا مستحب ہے، اس پر کفارہ لازم ہو جائے گا۔ یہ سب کے ہاں متفقہ موقف ہے۔"
پھر انہوں نے اہل علم کا کفارہ قسم سے پہلے یا بعد میں دینے کے حوالے سے اختلاف ذکر کیا اور کہا:
"اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہو گا، اور اس پر بھی اجماع ہے کہ قسم توڑنے کے بعد بھی کفارہ دینا جائز ہے، اور اس بات پر بھی کہ قسم اٹھانے سے پہلے کفارہ دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن قسم اٹھانے کے بعد اور قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ امام مالک، اوزاعی، ثوری، شافعی اور 14 صحابہ کرام سمیت تابعین کی ایک جماعت اس کے جواز کی قائل ہے، اور یہی موقف جمہور علمائے کرام کا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ: مستحب یہی ہے کہ قسم توڑنے کے بعد کفارہ دے۔ جبکہ امام شافعی نے روزوں کے ذریعے کفارہ دینے کی صورت میں کہا ہے کہ: کفارے کے روزے قسم توڑنے سے پہلے نہیں رکھے جا سکتے؛ کیونکہ یہ بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت کو اس کے وقت سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا جیسے کہ نماز اور رمضان کے روزوں کو ان کے وقت سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، تاہم مالی کفارے کی صورت میں قسم توڑنے سے پہلے ادا کیا جا سکتا ہے جیسے کہ زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے۔
تاہم ہمارے کچھ شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ قسم توڑنے میں نافرمانی ہو تو پھر پیشگی کفارہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان کے مطابق اس طرح گناہ کے لیے اعانت ہو گی، جبکہ جمہور علمائے کرام غیر نافرمانی میں قسم توڑنے کی طرح اسے بھی جائز کہتے ہیں۔
ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں سمیت مالکی فقیہ اشہب کہتے ہیں کہ: ہر حالت میں ہی قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینا جائز ہی نہیں ہے۔
جمہور اہل علم کے ہاں احادیث کا ظاہری مفہوم، اور زکاۃ میں پیشگی ادائیگی پر قیاس دلیل ہیں۔" ختم شد
دوم:
اگر قسم توڑنے کی صورت میں گناہ کا ارتکاب ہو تو قسم توڑنا جائز نہیں
اگر قسم توڑنے کی صورت میں گناہ کا ارتکاب ہو تو قسم توڑنا جائز نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں زنا نہیں کروں گا، یا شراب نوشی نہیں کروں گا تو اس قسم کو پورا کرنا لازم ہے، اور اسے توڑنا حرام ہے۔
چنانچہ قاضی عیاض رحمہ اللہ "إكمال المعلم" (5/408) میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (میں کسی دوسرے کام میں بہتری دیکھوں) یعنی جس کام کے کرنے یا ترک کرنے کی قسم اٹھائی ہے اس میں دنیا یا آخرت کے اعتبار سے بہتری ہے، خواہش یا شہوت کے موافق ہے اور گناہ بھی نہیں ہے۔" ختم شد
چنانچہ بسا اوقات قسم توڑنا حرام بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ پہلے مثال میں ذکر ہو چکا ہے، اور کبھی کبھار قسم توڑنا واجب بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ کوئی نماز نہ پڑھنے کی قسم اٹھائے، یا زکاۃ نہ دینے کی قسم اٹھائے، یا قطع رحمی کی قسم اٹھائے تو یہاں قسم توڑنا لازم ہے۔ ایسی ہی قسم سے متعلقہ کام کی نوعیت کے اعتبار سے قسم توڑنا مستحب، مکروہ یا مباح بھی ہو سکتا ہے، اس طرح قسم توڑنے کے بارے میں پانچوں شرعی احکامات لاگو ہو سکتے ہیں۔
جیسے کہ "الإقناع" (4/330) میں ہے کہ:
"بعض قسمیں ایسی ہیں جو واجب ہیں، مثلاً: کسی معصوم انسان کو ہلاکت سے بچانے کی قسم اٹھائے چاہے وہ اپنے بارے میں ہی قسم اٹھائے، جیسے کہ انسان کے خلاف قتل کا جھوٹا دعوی ہو اور یہ قسم اٹھا کر بری ہونے کا اظہار کرے۔
کچھ مندوب ہوتی ہیں، مثلاً: قسم کے ساتھ کوئی مصلحت منسلک ہو جائے، مثال کے طور پر قسم اٹھانے سے جھگڑنے والے دو افراد کے درمیان صلح ہو جائے، یا کسی مسلم یا غیر مسلم کے دل میں موجود کینہ زائل ہو جائے، یا کسی کا شر ٹل جائے۔
بسا اوقات قسم مباح ہوتی ہے، جیسے کہ کسی جائز کام کے کرنے یا اسے چھوڑنے کی قسم اٹھائے، یا کسی ایسی خبر کے متعلق قسم اٹھائے جس کے مخبر کے بارے میں اسے گمان ہو کہ وہ سچا ہے۔
اور بسا اوقات قسم اٹھانا مکروہ ہوتا ہے کہ کسی مکروہ کام کے ارتکاب یا مندوب عمل کو ترک کرنے کی قسم اٹھائے، اسی مکروہ قسم میں خرید و فروخت کرتے ہوئے قسم اٹھانا بھی شامل ہے۔
حرام قسم، وہ ہوتی ہے جس میں انسان جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھائے، یا کسی گناہ کے کام کی قسم اٹھائے یا کسی واجب کام کو ترک کرنے کی قسم اٹھائے۔
چنانچہ جب بھی قسم کسی واجب کام کے کرنے کی ہو گی یا حرام کام کو ترک کرنے کی ہو گی تو اسے توڑنا حرام ہو گا، لہذا ایسی قسم کو پورا کرنا لازم ہے۔
اور اگر کسی مستحب کام کے کرنے یا مکروہ کام کے چھوڑنے کی قسم ہو تو ایسی قسم کو بھی توڑنا مکروہ اور اسے پورا کرنا مستحب ہے۔
اور اگر کسی مکروہ کام کے کرنے یا مستحب کام کے ترک کرنے کے متعلق ہو تو پھر اسے توڑنا مستحب ہے اور اسے پورا کرنا مکروہ ہے۔
اور اگر کسی حرام کام کے کرنے یا واجب کام کے ترک کرنے کی قسم ہے تو پھر اسے توڑنا واجب اور اسے پورا کرنا حرام ہے۔
جبکہ مباح کام کی قسم ہو تو اسے توڑنا جائز تو ہے لیکن اسے پورا کرنا زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد
لیکن اگر سائل کا مقصد یہ ہے کہ قسم سے رجوع کا مطلب یہ ہے کہ رجوع کرنے سے اس پر کفارہ لاگو نہیں ہو گا، نہ ہی اس پر قسم توڑنے کی وجہ سے کچھ لازم ہو گا تو یہ نا ممکن ہے، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، اگر ایسا کچھ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور کرتے اور قسم سے رجوع کے لیے رہنمائی بھی کرتے ، کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دوسری جانب خیر نظر آئی تو قسم سے رجوع نہیں کیا بلکہ قسم کا کفارہ دینے کی رہنمائی کی اور زیادہ بہتر کام کرتے ہوئے قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
واللہ اعلم