جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

زلزلہ یا آگ لگ جانے کی صورت میں نماز توڑنے کا حکم، اور اگر نماز جاری رکھنے پر موت آ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو نماز کے دوران قدرتی آفت آ جانے پر بھی نماز نہ توڑے اور جاری رکھے، مثال کے طور پر: اگر مسجد میں نماز کے دوران زلزلہ آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوں اور کچھ مسجد میں نماز جاری رکھیں کہ امام نے نماز نہیں توڑی اور پھر مسجد کی چھت ان پر آ گرے اور فوت ہو جائیں، ان کی وفات اس لیے ہوئی کہ انہوں نے زلزلے کے دوران نماز نہیں توڑی، تو کیا وہ اس اعتبار سے شہیدوں میں شامل ہوں گے یا خود کشی کرنے والوں میں؟

جواب کا خلاصہ

جس شخص کو اپنے مرنے کا خدشہ ہو یا کسی معصوم جان کے مرنے کا خدشہ ہو اور اسے بچانا بھی ممکن ہو تو نماز جاری رکھنا جائز نہیں ہے، اگر جاری رکھتا ہے تو اسے گناہ ہوگا، اور اگر وہ مر جائے یا زخمی ہو جائے تو وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں میں شامل ہو گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص کی نماز کے دوران زلزلہ یا آگ وغیرہ لگنے کی صورت میں حادثہ پیش آ جائے اور اسے غالب گمان یہی ہو وہ زلزلے یا آگ کا شکار ہو جائے گا، اور یہ کہ اگر وہ مسجد سے نکل گیا تو نجات پا جائے گا، تو اس کے لیے وہاں سے بھاگنا ضروری ہے، وہ بچنے کی کوشش کرے۔ پھر اس کے بعد یہ کہ کیا وہ اپنی نماز مکمل کرے گا یا توڑ دے گا یہ اس وقت کی صورت حال کو دیکھ کر فیصلہ کرے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ جہاں اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے وہاں نہ ٹھہرے، اگر ٹھہرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والوں میں شامل ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی اور شخص ہلاک ہونے کے قریب ہو اور نمازی اپنی نماز توڑ کر اسے بچا سکتا ہو تو نماز توڑ کر بچانا لازمی ہے، مثلاً: کوئی پانی میں گرنے والا ہے، یا آگ یا کنویں میں گرنے والا ہے تو نمازی پر اسے بچانا لازمی ہے۔

اس بارے میں بنیادی ترین دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
 وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ  
ترجمہ: اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اچھے عمل کر و، بیشک اللہ تعالی اچھے عمل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ [البقرة:195]

اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)
اس حدیث کو امام احمد، اور ابن ماجہ: (2341) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح "كشاف القناع" (1/ 380) میں ہے کہ:
"کسی کافر یا کوئی بھی ایسا شخص جس کی جان کو تحفظ حاصل ہے جیسے کہ ذمی، معاہد، یا صاحب امان کو کنویں وغیرہ میں گرنے سے بچانا لازمی ہے، اسی طرح سانپ وغیرہ سے بچانا بھی اسی طرح لازمی ہے جیسے کسی مسلمان کو بچانا لازمی ہے؛ کیونکہ دونوں کی جان کو یکساں تحفظ حاصل ہے۔
اسی طرح پانی میں غرق ہونے والے کو اور آگ میں جلنے والے کو بھی بچانا لازمی ہے، اس کے لیے وہ نماز توڑ دے چاہے فرض ہو یا نفل۔ ظاہری طور پر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر نماز کا وقت کم ہو تب بھی نماز توڑ دے؛ کیونکہ نماز کا وقت نکل بھی گیا تو قضا پڑھی جا سکتی ہے، لیکن پانی یا آگ میں گر کر مرنے والا بعد میں نہیں بچایا جا سکتا۔
لیکن اگر کوئی ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانے کے لیے نماز نہیں توڑتا تو اسے گناہ تو ہو گا، لیکن اس کی نماز صحیح ہو گی، بالکل اسی طرح جیسے کوئی ریشمی عمامہ باندھ کر نماز پڑھے[کیونکہ ریشمی عمامہ باندھنے کا گناہ تو ہو گا، لیکن نماز صحیح ہو گی۔ مترجم]" ختم شد

اسی طرح ابن رجب حنبلیؒ کہتے ہیں کہ:
"قتادہؒ کا موقف ہے کہ: اگر کوئی نمازی کے کپڑے لے کر بھاگ جاتا ہے تو وہ نماز چھوڑ کر چور کا پیچھا کرے ۔
جبکہ مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ: جناب معمر ؛حسن اور قتادہ دونوں سے بیان کرتے ہیں: "ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے خدشہ محسوس ہوا کہ اس کی سواری بھاگ جائے گی، یا کوئی درندہ اس پر حملہ آور ہو جائے گا تو وہ کیا کرے؟ دونوں نے کہا کہ: نماز توڑ دے۔

اسی طرح معمر ، قتادہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور ایک بچہ بالکل کنویں کے کنارے پر ہے، نمازی کو خدشہ لگا کہ بچہ کنویں میں گر جائے گا تو کیا وہ نماز توڑ دے؟ قتادہ نے کہا: بالکل توڑ دے۔ پھر میں نے کہا کہ: اگر کوئی چور نمازی کا جوتا لے کر بھاگنے لگے تو کیا کرے؟ قتادہ نے کہا: پھر بھی نماز توڑ دے۔

سفیان ثوریؒ کا موقف یہ ہے کہ: اگر نمازی کو دوران نماز کسی بھیانک یا بہت بڑی آفت کا سامنا ہے تو وہ نماز توڑ دے۔ اس موقف کو ان سے المعافی ؒ نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح اگر نمازی کو اپنے مویشی سیلاب میں بہہ جانے کا خدشہ ہو، یا سواری کے بارے میں خدشہ ہو تب بھی نماز توڑ سکتا ہے۔

امام مالکؒ کا موقف یہ ہے کہ: جس شخص کی سواری دوران نماز کھل جائے تو اگر قریب ہی ہو تو دوران نماز چل کر پکڑ لے، مثلاً: دائیں جانب ہو یا بائیں جانب ہو یا سامنے ہو، اور اگر سواری دور ہے تو نماز توڑ کر اپنی سواری کو پکڑ لے۔

ہمارے فقہائے کرام کا موقف یہ ہے کہ: اگر کسی ڈوبتے یا جلتے ہوئے شخص کو دیکھے ، یا دو بچوں کو برے طریقے سے لڑتے ہوئے پائے یا اسی طرح کی کوئی صورت حال ہو اور نمازی ان صورتوں میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہو تو اپنی نماز توڑ کر انہیں نقصان سے بچائے گا۔

ہمارے کچھ فقہائے کرام نے اسے نفل نماز کے ساتھ خاص کیا ہے، جبکہ صحیح یہی ہے کہ اس میں فرض نماز بھی شامل ہے۔

امام احمدؒ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ: اگر کوئی شخص اپنے مقروض آدمی کو پکڑے ہوئے تھا، دونوں ہی نماز کے لیے داخل ہوئے ، اور قرض خواہ کے نماز شروع کرتے ہی مقروض بھاگ کھڑا ہوا تو قرض خواہ بھی نماز توڑ کر اسے پکڑ لے۔

امام احمدؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ: اگر نمازی کسی بچے کو کنویں کے دہانے پر دیکھے تو اپنی نماز توڑ کر اسے پکڑے اور بچے کو بچائے۔

جبکہ ہمارے بعض فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: نماز اسی وقت توڑے جب اسے بچانے کے لیے عمل کثیر کی ضرورت ہو، لیکن اگر بچانے کے لیے معمولی کام ہی کرنا پڑے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔

ابو بکر نے ایسے شخص کے بارے میں یہی کہا ہے کہ: جو شخص اپنے مقروض شخص کو پکڑنے کے لیے نکلے تو وہ اپنی بقیہ نماز وہیں سے مکمل کرے گا جہاں سے چھوڑی تھی۔ جبکہ قاضیؒ نے اس صورت کو معمولی فاصلے پر محمول کیا ہے۔
اس بات کا بھی عین امکان ہے کہ : نمازی کو اپنے مال کا خدشہ ہے تو اس کے عمل کثیر کو بھی معاف کر دیا جائے۔" ختم شد
"فتح الباری" از ابن رجب (9/336-337)

جواب کا خلاصہ:
جس شخص کو اپنے مرنے کا خدشہ ہو یا کسی معصوم جان کے مرنے کا خدشہ ہو اور اسے بچانا بھی ممکن ہو تو نماز جاری رکھنا جائز نہیں ہے، اگر جاری رکھتا ہے تو اسے گناہ ہو گا، اور اگر وہ مر جائے یا زخمی ہو جائے تو وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں میں شامل ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب