الحمد للہ.
علماء كرام كا اجماع ہے كہ جب اہل كتاب يہود اور عيسائى اپنے ذبيحہ پر بسم اللہ پڑھيں تو وہ مباح ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم اس ميں سے نہ كھاؤ جس پر اللہ كا نام نہيں ليا گيا.
اور اگر كتابى نے اللہ تعالى كے نام كے علاوہ كوئى اور نام ليا مثلا: عزير كے نام سے، يا مسيح كے نام سے، تو اسے كھانا حلال نہيں ہوگا كيونكہ وہ اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كے عموم ميں شامل ہوتا ہے:
اور جو غير اللہ كے ليے ذبح كيا گيا ہو .
اور يہ بھى شرط ہے كہ: ذبح شرعى طريقہ پر ہو، اور اگر يہ معلوم ہو جائے كہ اسے غير اسلامى طريقہ پر ذبح كيا گيا ہے مثلا: گلا گھونٹ كر، يا بجلى كے جھٹكے وغيرہ كے ذريعہ تو يہ حرام ہوگا.
اور بعض لوگ جو يہ دليل ديتے ہيں كہ كھاتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھنا ہى كافى ہے، تو يہ ان لوگوں كے متعلق وارد ہے جو نئے نئے مسلمان ہوں، صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے پاس ايسے لوگ گوشت لاتے ہيں جو ابھى كفر كو چھوڑ كر نئے نئے مسلمان ہوئے ہيں، ہميں علم نہيں كہ انہوں نے اس پر اللہ تعالى كا نام ليا ہے يا نہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس پر اللہ كا نام لے كر كھا لو"
اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں راويت كيا ہے.
لھذا مسلمان كا معاملہ صحيح اور سيدھا ہوتا ہے جب تك اس كے خلاف معلوم نہ ہو جائے.
واللہ اعلم .