اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عادت اور عبادت میں فرق

سوال

کوئی عبادت انسان کی عادت بن جائے تو کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ یعنی مجھے بسا اوقات کوئی مخصوص سورت پڑھتے ہوئے خشوع حاصل ہوتا ہے، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد خشوع ماند پڑ جاتا ہے، گویا کہ اس سورت کے بار بار پڑھنے سے میرا دل اس کے معنی اور مفہوم کا عادی ہو جاتا ہے، یہی حال بعض دعاؤں کا بھی ہے تو کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عادت کا مذکورہ مفہوم سے ہٹ کر بھی ایک معنی ہے؛ چنانچہ اگر عادت کسی اچھے کام کی ہو تو یہ اچھی چیز ہے، ایسے کام کو انسان بغیر کسی رکاوٹ اور تکلف کے تسلسل سے کیے جاتا ہے، حدیث مبارکہ میں بھی ہے کہ : (خیر کا کام بطور عادت ہو سکتا ہے، جبکہ برائی کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔) اس حدیث کو ابن ماجہ: (221) اور ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان: (310) میں روایت کیا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک چٹائی تھی اسے آپ دن میں بچھا لیتے تھے اور رات کے وقت نماز کے لیے اس کا گھیرا بنا لیتے تھے، تو لوگ بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے، ایک رات جب مجمع زیادہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگو! تم اتنی ہی عبادت کرو جتنی تم میں طاقت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو تھکاوٹ نہیں ہوتی، تھکاوٹ تمہیں ہی ہو گی۔ نیز اللہ تعالی کے ہاں پابندی سے کیے جانے والے اعمال محبوب ترین ہوتے ہیں چاہے ان کی مقدار کم ہی ہو) اسی لیے آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی کوئی کام کرتے تو اس کی پابندی کیا کرتے تھے" اس حدیث کو امام بخاری: (5861) اور مسلم : (782)نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح کسی شاعر کا کہنا ہے کہ:
" لكل امرئ من دهره ما تَعَوَّدَا "
انسان کے لئے اپنی پوری عمر میں سے وہی مفید ہوتا ہے جس کی اسے عادت ہو جائے۔

یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ اللہ تعالی کی جانب بڑھتے ہوئے انسان کے استقامت پر قائم دائم رہنے کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ: انسان اپنی نیکیوں پر تسلسل اور پابندی کے ساتھ عمل پیرا رہے، اپنی نیکیوں کو تحفظ دے، انہیں اپنی عادت اور فطرت ثانیہ میں شامل کرے، کسی قسم کی سستی اور کوتاہی کا شکار نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی عمل کرتے تو اس پر تسلسل کے ساتھ عمل جاری رکھتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل خانہ جب بھی کوئی عمل کرتے تو پابندی کے ساتھ اس پر عمل جاری رکھتے تھے۔

دوم:

جبکہ عادت کا یہ مفہوم لینا کہ انسان کو اپنی عبادت کا احساس تک نہ ہو، عبادت مشینی انداز میں خود کار طریقے کی طرح کرے کہ عبادت کی اصل روح ہی نہ ہو، تو یہ خطرناک بات ہے، انسان کو اس کا تدارک کرنا چاہیے۔

کیونکہ عبادت میں اجر ملتا ہی اس وقت ہے جب انسان کا دل حاضر ہو، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
  قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ * الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ 
 ترجمہ: ایمان لانے والے فلاح پا گئے، جو کہ اپنی نماز میں خشوع اپناتے ہیں۔ [المؤمنون:1- 2]

اس لیے عبادت کے دوران قلبی حاضری نہایت ضروری ہے، کوشش کرے کہ اپنے دل کو عبادت سے دور نہ لے جائے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا:
"میں نے ایک کتاب میں نصیحت پڑھی ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت کو عادت مت بنائیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ تعالی کی عبادت کو عبادت کے درجے میں ہی رکھے عادت مت بنائے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔"

تو انہوں نے جواب دیا:
"مطلب یہ ہے کہ نماز اس طرح نہیں پڑھنی کہ عادت ہو گئی ہے، بلکہ اسے عبادت سمجھ کر ادا کرنا ہے کہ آپ کو نماز کی بدولت اللہ تعالی کا قرب ملے، اور قرب الہی عادت سمجھ کر کرنے سے نہیں ملتا۔ لہذا جب آپ نماز اشراق پڑھیں تو قرب الہی کے حصول کے لئے پڑھیں، عادت کے طور پر نہ پڑھیں۔ اسی طرح جب آپ رات کو نماز تہجد پڑھیں تو آپ اسے عبادت سمجھ کر پڑھیں؛ کیونکہ یہ بھی نیکی کا کام ہے اسے محض عادت سمجھ کر مت پڑھیں، یا اس لیے نہ پڑھیں کہ آپ کے ابو یا امی تہجد پڑھتے ہیں۔۔۔"
https://bit.ly/3dZDaDs

سوم:

عبادات کے دوران حاضر قلبی کے لیے چند معاون امور درج ذیل ہیں:

  1. عبادات میں تنوع پیدا کرے، چنانچہ نماز، تلاوت قرآن، ذکر، صدقہ، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، بیمار پرسی، جنازہ پڑھنا اور دفنانا وغیرہ ہر طرح کی عبادات بجا لائیں، اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اللہ تعالی نے شریعت میں متنوع عبادات رکھی ہیں۔
  2. نیکی کرتے ہوئے نیت بحال رکھے۔

ابن قیم رحمہ اللہ "عدة الصابرين" (65 - 66) میں کہتے ہیں:
"نیکی کے دوران نیکی پر ڈٹ جانا: انسان ایسے تمام اسباب اور ذرائع سے دور رہے جو نیکی میں کمی اور کوتاہی کا باعث بنیں، ہر وقت نیت اپنے ذہن میں تازہ رکھے، معبود برحق کے سامنے کھڑے ہو کر حاضر قلبی کے ساتھ بندگی کرے، اپنے کسی بھی معاملے میں اللہ تعالی کی یاد شامل حال رکھے؛ کیونکہ معاملہ صرف حکم کی تعمیل پر ہی موقوف نہیں ہے، بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ انسان حکم کی تعمیل کے دوران حکم کرنے والی ذات کو ایک لمحے کے لیے بھی نہ بھولے، بلکہ مسلسل اسے یاد رکھے۔

اس انداز سے عبادت اصل میں اللہ تعالی کے مخلص بندوں کی عبادت ہے، ایسی عبادت تبھی پیدا ہوتی ہے جب عبادت کو مکمل حق دیا جاتا ہے، عبادت کے تمام ارکان، واجبات اور سنتیں پوری کی جائیں، عبادت کے دوران مسلسل معبود برحق کو یاد رکھیں، عبادت کے دوران اللہ تعالی کو مت بھولیں، بارگاہ الہی میں کھڑے ہوتے وقت تسلسل کے ساتھ قلبی حاضری یقینی ہو، ایسا نہ ہو کہ اعضا اللہ تعالی کی بندگی کرتے ہوئے یہ بھول جائیں کہ وہ بارگاہ الہی میں اپنی بندگی پیش کر رہے ہیں۔" ختم شد

         3. بھر پور انداز سے دعائیں کریں۔

کیونکہ دعا اللہ تعالی کی معیت اور مدد حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ترین ہتھیار ہے۔

           4.نیکی کے کاموں میں انقطاع نہ آئے۔

کیونکہ یہ بھی شیطان کا ہتھیار ہے کہ انسان کو یہ کہہ کر ورغلا دیتا ہے کہ: " قلبی حضور کے بغیر بھی کوئی عبادت ہوتی ہے!؟" اس لیے مومن شخص تسلسل کے ساتھ نیکیاں کرتا رہے، اور شیطانی چالوں کے متعلق مکمل چوکس رہے۔

          5.عبادت کے لیے مکمل تیاری کرے، اور کسی بھی ایسے عمل سے دور رہے جو انسان کو عبادت کے دوران مصروف رکھے۔

جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھے، اور نہ ہی بول و براز کی شدت کے وقت نماز پڑھے۔) اس حدیث کو ابو داود: (89) نے روایت کیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب