سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کورونا وائرس کی وجہ سے فوت ہونے والا شخص شہید کہلائے گا؟

سوال

آج کل کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے تو ان مشکل حالات میں مسلمان کیا کرے؟ اور اگر کسی کی موت اللہ تعالی نے اس وائرس کی وجہ سے لکھ دی ہے تو کیا اسے شہید کہا جائے گا؟ اللہ تعالی آپ کو بہترین جزائے خیر سے نوازے اور ہم سب کو ہمہ قسم کی بری بیماریوں سے محفوظ رکھے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ان ایام میں مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس بارے میں آپ سوال نمبر: (334353) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

دوم:

شہدا کی اقسام اور کسی کو شہید قرار دینے کا ضابطہ پہلے سوال نمبر: (226242) کے جواب میں گزر چکا ہے، اسی طرح آپ سوال نمبر: (129214) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے فوت ہونے والے شخص کے لیے دو اعتبار سے شہادت کی امید ہے:

پہلی وجہ: جس شخص کے پھیپھڑے کورونا وائرس کی وجہ سے تلف ہو جائیں اور اسی وجہ سے اس کی موت بھی واقع ہو تو اس کے لیے شہادت کی امید کی جا سکتی ہے؛ کیونکہ ایسا شخص سِل یعنی تپ دق (ٹی بی TB)کی بیماری والا حکم رکھتا ہے، بلکہ TB سے بھی شدید نوعیت کی بیماری میں مبتلا ہے؛ کیونکہ اس مرض میں پھیپھڑے میں پھوڑا نکل آتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (سل کا مرض باعث شہادت ہے) اس حدیث کو طبرانی نے سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اسی طرح ابو الشیخ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، اور صحیح الجامع میں البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے، انہوں نے اس کی نسبت مسند احمد کی طرف بھی کی ہے کہ امام احمد نے اسے راشد بن حبیش کی سند سے بیان کیا ہے، یہ نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بھی بیان کی ہے۔

جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسند احمد میں راشد بن حبیش کی حدیث بھی اسی کے مطابق ہے، اور اس میں لفظ " السِّلّ " وارد ہوا ہے جس میں سین کے نیچے زیر اور لام پر تشدید ہے۔" ختم شد
فتح الباری (6/ 43)

مسند احمد میں راشد بن حبیش کی روایت: (15998) اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیماری میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہیں معلوم ہے کہ میری امت میں سے شہید کون ہے؟) تو لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، اس پر عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سہارا دو، تو لوگوں نے انہیں سہارا دیا، پھر وہ کہنے لگے: "اللہ کے رسول! شہید وہ ہے جو صبر کرنے والا اور ثواب کی امید رکھنے والا ہو" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تب تو میری امت کے شہدا یقینی طور پر بہت ہی کم ہوں گے: اللہ کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے، طاعون شہادت ہے، پانی میں ڈوب کر مرنا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں شہادت ہے، زچہ کو اس کا بچہ اپنے نال سے جنت کی طرف کھینچے گا۔) راوی کہتے ہیں کہ: ابو العوام جو کہ بیت المقدس کے خادم ہیں انہوں نے اس میں دو چیزیں مزید زائد بیان کی ہیں: (جل کر مرنے والا شہید ہے، سیل کی وجہ سے مرنے والا بھی شہید ہے)۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے عربی لفظ " السيل " سین پر زبر اور اس کے بعد نیچے دو نقطوں والی یا ہے ، یعنی مطلب یہ ہے کہ پانی میں ڈوب کر فوت ہونے والا شخص شہید ہے، مصنف نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ کا ضبط اسی طرح لکھا ہے، اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے مصنف کی کتاب میں اسے دیکھا ہے، چنانچہ بہت سے نسخوں میں جو لفظ " السِّلّ " وارد ہوا ہے وہ ناسخ کی غلطی ہے۔ " ختم شد
"فیض القدیر" (4/ 533)

جبکہ مسند احمد کے محققین (25 / 380)کہتے ہیں کہ:
"حدیث کا لفظ: " السيل " تمام کے تمام نسخوں میں اسی طرح لکھا ہوا ہے، اسی طرح کتاب: " غاية المقصد" میں بھی یہی ہے، اس اعتبار سے اس کا معنی پانی میں ڈوب جانے والے کا ہو گا، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: (6/43) میں اسے " السِّلّ "یعنی سین کے نیچے زیر اور لام پر تشدید کے ساتھ لکھا ہے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ معروف بیماری جسے تپ دق بھی کہتے ہیں، تو اس وقت ممکن ہے کہ اس بیماری سے متاثر شخص طاعون کی وجہ سے مرنے والے افراد میں شامل ہو گا۔" ختم شد
ہم پہلے حدیث ذکر کر چکے ہیں کہ (سل کا مرض باعث شہادت ہے)۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ فيض القدير (4/ 145) میں لکھتے ہیں کہ:
"(سل کا مرض باعث شہادت ہے) اور سل سے مراد پھیپھڑوں میں نکلنے والا پھوڑا ہے، اس کے ساتھ ساتھ معمولی بخار بھی ہوتا ہے۔" ختم شد

دوسری وجہ: جس وقت کورونا وائرس جگر یا گردے کے تلف ہونے کا سبب بنے اور اسی وجہ سے انسان فوت ہو جائے تو ایسی صورت میں فوت ہونے والا شخص "مبطون" ہو گا، چنانچہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (شہدا پانچ ہیں: طاعون کی بیماری والا، مبطون یعنی پیٹ کی بیماری والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا) اس حدیث کو امام بخاری: (2829) اور مسلم : (1914)نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث میں مذکور لفظ مبطون سے پیٹ کی بیماری اسہال یعنی پیچش مراد ہیں، قاضی کہتے ہیں: مبطون کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد استسقا اور پیٹ پھولنے کی بیماری ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ا س سے مراد وہ شخص ہے جس کا پیٹ خراب ہو، یہ بھی موقف ہے کہ مطلق طور پر پیٹ کی جو بھی بیماری ہو وہ مبطون کے اطلاق میں شامل ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا کہ:
"حدیث میں آیا ہے کہ مبطون شخص شہید ہے، تو یہاں پر مبطون کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا اگر کوئی شخص جگر میں خرابی کی وجہ سے فوت ہو تو وہ بھی مبطون میں شامل ہو گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"مبطون کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں کہ: جو شخص پیٹ کی بیمار ی کی وجہ سے فوت ہوا ہو وہ مبطون ہے، اب ظاہر تو یہی ہے کہ جو شخص اپینڈکس کی وجہ سے فوت ہو تو وہ بھی اسی میں شامل ہو گا؛ کیونکہ یہ بھی پیٹ ہی کی مہلک بیماری ہے، اور امید ہے کہ جو شخص جگر میں خرابی کی وجہ سے فوت ہوا وہ بھی اس میں شامل ہو؛ کیونکہ یہ بھی پیٹ کی جان لیوا بیماری ہے" ختم شد
مجلۃ الدعوۃ میں شائع ہونے والے فتاوی الشیخ ابن عثیمین

تو خلاصہ یہ ہوا کہ:
جو شخص بھی کورونا وائرس کی وجہ سے فوت ہوا تو اس کے لیے شہادت کی امید کی جا سکتی ہے۔

یہاں ہم یہ تنبیہ کرتے جائیں کہ کورونا وائرس طاعون میں شامل نہیں ہے، جیسے کہ ہم اس کی مکمل وضاحت پہلے سوال نمبر: (333763 ) کے جواب میں کر آئے ہیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وبائی مرض کو ختم کر دے اور ہم سب مسلمانوں کو عافیت سے نوازے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب