الحمد للہ.
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں ہوتى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 710 ).
يہ حديث اس كى دليل ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو كسى بھى شخص كے ليے نفل ادا كرنے جائز نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( جب نماز كى اقامت ہو جائے تو اسے چھوڑ كر نفل ادا نہيں كيے جا سكتے، چاہے پہلى ركعت جانے كا خدشہ ہو يا نہ ہو، ابو ہريرہ، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم، اور عروہ، ابن سيرين، سعيد بن جبير، امام شافعى، اسحاق، اور ابو ثور رحمہم اللہ كا يہى قول ہے ) اھـ
ديكھيں: المغنى ( 1 / 272 ).
اور بعض علماء كرام نے اس حديث سے يہ استدلال كيا ہے كہ جو شخص نفل اور سنت ادا كر رہا ہو اور نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ نفل توڑ دے.
حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ قول: " كوئى نماز نہيں "
احتمال ہے كہ اس سے يہ مراد ہو كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ شروع نہ كرے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس سے مراد يہ ہو كہ وہ نماز ميں مشغول نہ ہو اور اگر اس نے اقامت ہونے سے قبل نماز شروع كر لى تو وہ تكبير تحريمہ كى فضيلت حاصل كرنے كے ليے نماز توڑ دے.
يا پھر اگر نمازى نماز نہيں توڑتا تو وہ خود ہى باطل ہو جائيگى، دونوں كا ہى احتمال ہے ).
شافعيہ ميں سے ابو حامد سے منقول ہے كہ: اگر نفلى نماز مكمل كرنے ميں تكبير تحريمہ كى فضيلت فوت ہونے كا خدشہ ہو تو نفلى نماز ختم كرنا افضل ہے.
عراقى رحمہ اللہ تعالى كى كلام شوكانى رحمہ اللہ تعالى نے نيل الاوطار ( 3 / 91 ) ميں نقل كى ہے.
جب مستقل فتوى كميٹى سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو اس كا بھى فتوى يہى تھا:
سوال يہ تھا:
كيا ميں سنتيں ختم كر كے تكبير تحريمہ ميں امام كے ساتھ ملوں يا كہ سنتيں مكمل كروں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
جى ہاں جب فرضى نماز كى اقامت ہو جائے تو جو نفل اور سنتيں آپ ادا كر رہے ہيں اسے توڑ ديں تا كہ امام كے ساتھ تكبير تحريمہ ميں مل سكيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اسے راجح قرار ديا ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو اور وہ سنتوں يا نفل كى پہلى ركعت ميں ہو تو نماز توڑ دے، اور جب اقامت ہو جائے اور وہ دوسرى ركعت ميں ہو تو اسے ہلكى اور تخفيف كے ساتھ ادا كرلينى چاہيے وہ توڑے نہيں.
شيخ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ:
اگر آپ دوسرى ركعت ميں ہوں تو اسے ہلكى كر كے ادا كر ليں، اور اگر پہلى ركعت ميں ہوں تو نماز توڑ ديں، اس ميں ہمارى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" جس نے نماز كى ايك ركعت پا لى تو اس نے نماز پا لى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 607 ).
اور يہ شخص جس نے اقامت ہونے سے قبل ايك ركعت ادا كر لى تو اس نے معارض جو كہ نماز كى اقامت ہے سے سالم نماز پا لى، تو اس طرح ممانعت سے قبل ايك ركعت ادا كر لينے كى بنا پر نماز پالى لھذا اسے تخفيف كر كے اسے مكمل كر لينا چاہيے...
پھر شيخ كہتے ہيں: اور اس سے دليل ميں جمع ہوجاتا ہے. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 238 ).
اور اگر وہ نفل يا سنت كو توڑے تو وہ بغير سلام كے توڑ دے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب نماز كے ليے اقامت ہو جائے اور كوئى شخص سنتيں يا تحيۃ المسجد ادا كر رہا ہو تو كيا وہ فرضى نماز كے ساتھ ملنے كے ليے اپنى نماز توڑ دے؟
اگر جواب اثبات ميں ہو تو كيا وہ نماز توڑتے وقت دونوں طرف سلام پھيرے يا كہ بغير سلام كے نماز توڑ دے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ وہ اس نماز كو توڑ دے، اور اس كے ليے اسے نماز سے نكلنے كے ليے سلام پھيرنے كى ضرورت نہيں، نماز توڑ كر وہ امام كے ساتھ شامل ہو جائے " اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).
واللہ اعلم .