الحمد للہ.
اس خائن اور مجرم قسم كے باپ كونصيحت كرني اور اللہ تعالي كي دعوت ديني اور اللہ تعالي كے سامنے پيش ہونا اور اس كي ملاقات ياد كرواني اور اس عظيم قسم كے غلط كام سے نفرت دلاني واجب ہے ، جوكہ والد جيسي شخصيت كے منافي ہے ، كيونكہ اولاد تو آدمي كا ايك جزء اور حصہ اور جگركا ٹكڑا شمار ہوتا ہے تويہ كيسے ہوسكتا ہے كہ آدمي اپني اولاد سے شہوت والے كام كرنے لگے؟! انا للہ وانا اليہ راجعون .
اور اگر وعظ ونصيحت سے كوئي فائدہ نہ ہو تو اس كا ہاتھ روكنا اور عبرت ناك سزا دينا ضروري اور واجب ہے تاكہ وہ خود بھي اور اس طرح كے دوسرے لوگ اس اس شنيع جرم كرنے سے باز آئيں اور عبرت حاصل كريں .
يہ عظيم برائي بھي اس كےساتھ حسن سلوك اور احسان اور صلہ رحمي كرنے كے حق كوساقط نہيں كرتي ليكن اس معاملہ ميں ہراس چيز سے اجتناب كيا جائے جوحرام كام ميں وقوع كا باعث بنے .
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالي نے والدين كے ساتھ حسن سلوك اور احسان كرنے كا حكم ديا ہے اگرچہ وہ اپني اولاد كو شرك كرنےپر بھي ابھارتے ہوں فرمان باري تعالي ہے :
اور اگروہ دونوں تجھ پر اس بات كا دباؤ ڈاليں كہ تو ميرے ساتھ شرك كرے جس كا تجھے علم نہ ہو توان كا كہنا نہ ماننا، ہاں دنيا ميں ان كے ساتھ اچھي طرح بسر كرنالقمان ( 15 )
لھذا اس كي اولاد كوچاہيے كہ وہ اس كےساتھ حسن سلوك سے پيش آئيں اور اس سے نيكي كريں ، ليكن انہيں اپنے والد كےساتھ برتاؤ كرتے ہوئے مكمل احتياط كرنا ہوگي اور اس سے احتراز كريں كہ ان ميں سے كوئي بھي اكيلا والد كے پاس نہ رہے بلكہ دوسرے كوساتھ ركھے ، اور جب اس كي اولاد ميں سے كوئي ايك بچہ فوت ہوجائے تو اسے اس كي وراثت ميں سےحق ملےگا جس طرح ہرباپ كواپني اولاد كي وراثت ملتي ہے .
اور اس كي ہدايت اور توبہ كي توفيق كي دعا كثرت سے كرنا ضروري ہے كيونكہ دل اللہ رحمن كي انگليوں كے درميان ہيں وہ جس طرح چاہے انہيں پلٹ ديتا ہے .
واللہ اعلم .