الحمد للہ.
اول:
اعتکاف: اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے لیے مسجد میں رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں، اعتکاف صرف مسجد میں ہوتا ہے کہیں اور اعتکاف درست نہیں ہو گا، یہ حکم مرد و عورت سب کے لیے یکساں ہے۔
جیسے کہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مردوں کے لیے مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ہو گا، ہمیں اس حوالے سے کسی اہل علم کے اختلافی موقف کا علم نہیں ہے۔
اس بارے میں بنیادی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
ترجمہ: اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھے ہو۔[البقرۃ: 187]
تو اللہ تعالی نے اعتکاف کو مساجد کے ساتھ خاص کیا ہے، اگر مسجد کے علاوہ کہیں اور اعتکاف صحیح ہوتا تو مباشرت کی حرمت کو مسجد کے ساتھ خاص نہ کیا جاتا؛ کیونکہ مباشرت اعتکاف کی حالت میں مطلقا حرام ہے۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں ہوتے ہوئے میری طرف اپنا سر کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی تھی، اور آپ اعتکاف کے دوران گھر میں ضرورت پر ہی آتے تھے۔)
اسی طرح دارقطنی نے اپنی سند سے زہری سے وہ عروہ اور سعید بن مسیب سے اور وہ دونوں سیدہ عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ: (معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت کے تحت ہی مسجد سے نکلے ، اور ایسی مسجد میں ہی اعتکاف ہو گا جہاں با جماعت نماز کا اہتمام ہو)" ختم شد
"المغنی" (3/65)
جمہور اہل علم کے ہاں عورت کا بھی وہی حکم ہے جو مردوں کا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (50025 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر اگر لاک ڈاؤن کے دوران کسی کے لیے مسجد میں رہنے کی اجازت ہو جیسے کہ امام ، مؤذن اور خادم وغیرہ تو وہ اعتکاف کر سکتے ہیں۔
دوم:
اگر کسی کو مسجد میں ٹھہرنے کی اجازت نہ ملے اور وہ پابندی سے اعتکاف کرتا آ رہا ہو تو لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اعتکاف کی قضا شوال یا کسی اور مہینے میں دے سکتا ہے یا پھر آئندہ رمضان میں 20 دن اعتکاف بیٹھے۔
جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، تو میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر پڑھ کر اپنے خیمے میں داخل ہوتے، تو ایک بار سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ لگانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دے دی اور سیدہ حفصہ نے اپنا خیمہ لگا لیا، پھر جب انہیں زینب بنت جحش نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنا خیمہ لگا لیا، چنانچہ جب صبح ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کافی خیمے دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے بارے میں بتلایا گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم سب نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مہینے میں اعتکاف نہیں کیا، اور شوال کے مہینے میں 10 دن اعتکاف کیا۔" اس حدیث کو امام بخاری: (2033) اور مسلم : (1172)نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری" (4/ 276) میں کہتے ہیں:
"محسوس یہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خدشہ ہوا کہ ازواج مطہرات اعتکاف کے لیے سوتن پن کی وجہ سے تیار ہوئی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قرب حاصل ہو گا، اور اعتکاف کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آغاز میں عائشہ اور حفصہ کو اجازت دینا اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا کہ جتنا بقیہ ازواج مطہرات کے آنے سے بنا کیونکہ پھر نمازیوں کے لیے مسجد تنگ پڑ جاتی۔
یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آس پاس ازواج مطہرات ہوں گی تو یہ ایسے ہی ہو جائے گا جیسے آپ گھر میں بیٹھے ہیں، تو ایسا ممکن ہے عبادت کے لیے مطلوبہ خلوت حاصل نہ ہو اور اعتکاف کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔
حدیث کے الفاظ: " اس مہینے میں اعتکاف نہیں کیا، اور شوال کے مہینے میں 10 دن اعتکاف کیا۔" کے بارے میں اسماعیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ان میں بغیر روزوں کے اعتکاف کا جواز ہے کیونکہ شوال کا پہلا دن عید الفطر کا ہوتا ہے اور اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا کہ: ماہ شوال میں اعتکاف کی قضا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نفل عبادت کی پابندی کرتا ہو اور وہ رہ جائے تو اس کی قضا دینا مستحب ہے۔" ختم شد
سنن ابو داود: (2463) اور ابن ماجہ: (1770) میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، تو ایک سال آپ نے اعتکاف نہیں کیا، پھر جب آئندہ رمضان آیا تو آپ نے 20 راتیں اعتکاف کیا۔
اس سے ملتی جلتی روایت سنن ترمذی: (803) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
اسی طرح مسند احمد: (21277) میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، تو ایک سال آپ سفر پر رہے، پھر جب آئندہ سال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے 20 دن اعتکاف کیا۔)
اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے، اسی طرح مسند احمد کی تحقیق میں شعیب ؒ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تو الحمد للہ، اس معاملے میں وسعت ہے، نیز ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وبائی امراض اور آزمائشوں کو ختم فرما دے۔
واللہ اعلم