جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا ميت پر آنسو بہانے سے ميت كو عذاب ہوتا ہے ؟

سوال

كيا ميت پر آنسو بہانے سے ميت كو عذاب ہوتا ہے، اگرچہ كچھ مدت بعد ہى بہائے جائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كئى ايك احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ميت كے اہل و عيال كا ميت پر رونے اور آہ بكا كرنے سے ميت كو عذاب ہوتا ہے.

ان احاديث ميں سے ايك حديث امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كى ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ام المومنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا عمر رضى اللہ تعالى عنہا پر روئيں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے ميرى پيارى بيٹى صبر كرو اور رونے سے رك جاؤ! كيا تمہيں علم نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا ہے:

" ميت پر اس كے اہل و عيال كے رونے كى بنا پر ميت كو عذاب ہوتا ہے"

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 927 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ كئى ايك حادثات ميں ميت كے پاس آپ صلى اللہ عليہ وسلم روئے، اس ميں سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنے بيٹے ابراہيم رضى اللہ عنہ كى موت پر رونا بھى شامل ہے.

جيسا كہ بخارى اور مسلم كى انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كردہ حديث ميں ہے.

ديكھيں: صحيح بخاري ( 2 / 105 ) صحيح مسلم ( 7 / 76 ).

اور انس رضى اللہ تعالى عنہ ہى بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى ايك بيٹى كى موت پر اسےدفن كرنے كے دوران رو پڑے.

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 1258 ).

اور اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے نواسے كى وفات كے وقت روئے.

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 1284 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 923 ).

اگر يہ كہا جائے كہ ہم ميت پر رونے سے منع كرنےوالى احاديث اور دوسرى ميت پر رونے كى اجازت دينےوالى احاديث ميں تطبيق كس طرح دے سكتے ہيں؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ مندرجہ ذيل حديث ميں بيان كرديا ہے:

بخارى اور مسلم رحمہما اللہ تعالى اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ايك نواسے پررونے لگے تو سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى نے عرض كي اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كيا؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ رحمت اور نرم دلى ہے جسے اللہ تعالى نے اپنے بندوں كے دلوں ميں ركھا ہے، اور اللہ تعالى بھى اپنے رحم كرنے والے بندوں پر رحم فرماتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7377 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 923 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ سعد رضى اللہ تعالى كا خيال تھا كہ رونے كى سارى قسميں حرام ہيں، اور آنسوبہانا بھى حرام ہے، اور انہوں نے گمان كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھول گئے ہيں تو انہيں ياد دلايا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بتايا كہ صرف رونا اور آنسو بہانا حرام اور مكروہ نہيں، بلكہ يہ تو رحمت اور فضيلت ہے، بلكہ حرام تو نوحہ كرنا اور بين كرنا ہے، اور وہ رونا جو بين اور نوحہ كے ساتھ ملا ہوا ہو حرام ہے.

جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى آنكھ سے آنسو بہنے پر عذاب نہيں ديتا، اور نہ ہى دل كے غمگين ہونے پر، بلكہ عذاب يا رحم تو اس كے ساتھ ہوتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان كى طرف اشارہ كيا" اھـ

اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى سے ميت پر ماں اور بھائيوں كے رونے كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا اس ميں ميت پركچھ حرج اور گناہ ہے؟

تو ان كا جواب تھا:

( آنكھوں سے آنسو جارى ہونا، اور دل كا غمگين ہو جانے ميں تو كوئى گناہ اور معصيت نہيں، ليكن نوحہ اور آہ بكا كرنا اور كپڑے پھاڑنا منع ہے ) اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 24 / 380 ).

اور رہا مسئلہ ميت پر رونے كا چاہےكچھ مدت گزرنے كے بعد ہى كيوں نہ ہو، تو اس ميں ايك شرط كے ساتھ كوئىحرج نہيں، كہ اس رونے ميں نہ تو نوحہ اور واويلا شامل ہو اور نہ ہى اونچى آواز كے ساتھ ميت پر رويا جائے، اور نہ ہى اللہ تعالى كى تقدير پر ناراضگى كا اظہار كيا جائے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى والدہ كى قبر كى زيارت كى تو رونے لگے، اور آپنے ارد گرد لوگوں كو بھى رلا ديا، اور فرمانےلگے:

" ميں نے اپنے رب سے والدہ كى استغفار كے ليے اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ دى گئى، اورميں نے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دےدى گئى، لھذا قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ يہ موت ياد دلاتى ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 976 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب