الحمد للہ.
اول:
مغرب کی سمت میں سفر کرنے والا شخص ظہر کے وقت میں منزل مقصود پر پہنچے اور اس نے نماز دوران سفر پہلے ہی ادا کر لی ہو تو اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہو گا؛ کیونکہ ایک نماز دو بار ادا نہیں کی جاتی، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب سفر کی سمت مغرب ہو تو نماز کا وقت مزید مؤخر ہوتا چلا جائے گا ۔
اسی طرح اگر اس نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے تو اس پر اعادہ لازم نہیں ہو گا؛ چاہے ظہر کے وقت میں نماز ادا کرے یا عصر کے وقت میں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22387) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تاہم جو شخص مسجد میں ہو تو وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے ؛ یہ اس کے لیے نفل بن جائے گی، اس لیے کہ ترمذی: (219) اور نسائی: (858) میں یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : " حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ میں نے مسجد خیف میں فجر کی نماز ادا کی، چنانچہ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو جماعت کے آخر میں دو آدمیوں کے دیکھا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز ادا نہیں کی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں کو میرے پاس لے کر آؤ) تو دونوں کو لایا گیا ان کے پٹھے ڈر سے کانپ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے منع کیا ہے؟) تو دونوں نے کہا: ہم نے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آئندہ ایسے مت کرنا، لہذا جب تم اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو اور پھر جماعت والی مسجد میں آؤ تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لو، یہ تمہاری نفل ہو جائے گی)" اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
جبکہ روزے کے بارے میں یہ ہے کہ غروب آفتاب کے وقت انسان جہاں پر ہے وہاں کا غروب معتبر ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنا سفر جاری رکھے اور سورج غروب نہ ہوا ہو تو اسے روزہ افطار کرنے کی اجازت تبھی ہو گی جب سورج غروب ہو جائے گا؛ چاہے اس طرح سے اس کا روزہ لمبا کیوں نہ ہو جائے، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ترجمہ: پھر رات تک (یعنی سورج غروب ہونے تک)روزہ مکمل کرو۔ [البقرة:187]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جس وقت رات اس طرف سے آ جائے اور دن اس طرف سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ کھل جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1954) اور مسلم : (1100)نے روایت کیا ہے۔
اس بنا پر: یہ مسافر جس وقت کوریا پہنچا اور لوگ ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے تو اگر اپنا روزہ پورا کرنا چاہے تو اسے سورج غروب ہونے کا انتظار کرنا ہو گا، چنانچہ اِس کے لیے نائیجریا میں سورج غروب ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔
تاہم اگر یہ مسافر چاہے تو روزہ افطار کر لے کیونکہ یہ مسافر ہے اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی سہولت شریعت نے دی ہے، خصوصاً ایسی صورت حال میں کہ جب اچانک اس طرح کی کیفیت بن جائے اور اپنی منزل والے علاقے میں سورج غروب ہونے تک روزہ مکمل کرنا اس کے لیے مشقت کا باعث ہو تو روزہ کھول لے اور رمضان کے بعد اس روزے کی قضائی دے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"امریکہ میں پڑھنے والے ایک طالب علم نے اپنا واقعہ ذکر کیا کہ ایک بار اسے اپنے شہر سے دوسرے شہر جانے کا اتفاق ہوا، چنانچہ وہ اپنے شہر سے فجر کے وقت روزہ رکھ کر روانہ ہوا اور امریکہ میں ہی اپنی منزل پر اپنے مقامی شہر کے مطابق مغرب کے بعد پہنچا لیکن 18 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی اس کا روزہ ختم نہیں ہوا تھا؛ حالانکہ عام دنوں میں وہ صرف 14 گھنٹے کا روزہ رکھتا تھا، تو کیا وہ روزہ کھولنے کے لیے مزید 4 گھنٹے انتظار کرے گا؟ یا پھر اپنے شہر کے مطابق روزہ کھول لے گا؟ لیکن واپسی میں معاملہ اس کے بر خلاف ہوا کہ دن 14 گھنٹے سے بھی 3 گھنٹے مزید کم ہو گیا!"
تو شیخ محترم نے جواب دیا کہ:
"سورج غروب ہونے تک اپنا روزہ مکمل کرے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس وقت رات اس طرف سے آ جائے اور دن اس طرف سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ کھل جاتا ہے۔)
اس لیے اس پر لازم ہے کہ جب تک سورج غروب نہیں ہوتا وہ اپنا روزہ مکمل کرے، چاہے اسے 4 گھنٹے مزید انتظار کرنا پڑے۔
اس کی مثال سعودی عرب میں بھی پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرقی علاقے سے مغربی علاقے کی جانب سفر کرے تو اس کے روزے کے وقت میں بھی فرق آ جاتا ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوی ابن عثیمین" (19/ 322)
اسی طرح ڈاکٹر عبد اللہ سکاکر اپنی کتاب: "نوازل الصیام" میں کہتے ہیں:
"دوسرا مسئلہ: روزے دار غروب آفتاب سے تھوڑی دیر قبل اپنے علاقے سے مغرب کی جانب سفر کرے تو اس کے لیے غروب آفتاب کا وقت متاخر ہوتا جائے گا، مثلاً: اس کے علاقے میں سورج شام 6 بجے غروب ہوتا ہے، لیکن 6 بجنے سے صرف 10 منٹ پہلے مسافر جہاز میں سوار ہو گیا اور مغرب کی جانب سفر شروع کر دیا، تو جس قدر وہ اسی سمت میں چلتا جائے گا اس کا دن مزید لمبا ہوتا چلا جائے گا حتی کہ سورج کہیں 8 بجے جا کر غروب ہو گا، اس لیے وہ مزید ایک دو گھنٹے سورج دیکھتا ہی رہے گا، تو ہم اسے کیا کہیں گے؟
ہم کہیں گے: وہ اس وقت تک افطار نہیں کرے گا جب تک سورج غروب نہیں ہو جاتا چاہے اسے دو، چار، یا پانچ یا اس سے بھی زیادہ گھنٹے انتظار کرنا پڑے۔ تاہم اسے اختیار ہے کہ مسافر کو ملنے والی شرعی سہولتوں کا فائدہ اٹھائے اور روزہ وقت سے پہلے توڑ لے، یا پھر روزہ مکمل کرنا چاہے تو روزہ مکمل کر لے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے روزہ افطار کرنے کی ایک حد مقرر کرتے ہوئے فرمایا: ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ترجمہ: پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔ [البقرة:187] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جس وقت رات اس طرف سے آ جائے اور دن اس طرف سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ کھل جاتا ہے۔)
تو سورج غروب ہونے تک اس شخص کا دن قائم رہے گا، اس لیے اس پر لازم ہو گا کہ اس وقت تک روزہ جاری رکھے یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، یا پھر سفر کی رخصتوں پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑ لے اور بعد میں اس روزے کی قضائی دے دے۔" ختم شد
تو حاصل کلام یہ ہوا کہ:
1- جو شخص نماز کا وقت ہونے پر نماز پڑھ لے ، پھر جب اپنی منزل پر پہنچے تو اسی نماز کا وقت وہاں پر داخل ہو چکا تھا یا نہیں ہر دو صورت میں اس پر پہلے ادا کی ہوئی نماز دہرانا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ نماز ایک دن میں دو بار نہیں پڑھی جاتی؛ چنانچہ اس سے پہلے نماز صحیح ادا ہو چکی ہے لہذا اب اس پر دوبارہ نماز ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔
2- جبکہ روزے دار اگر مغرب کی سمت سفر کر رہا ہو تو سورج غروب ہونے تک روزہ افطار نہیں کرے گا چاہے سورج غروب ہونے میں کتنی ہی تاخیر ہو جائے، نیز آغاز سفر والے علاقے میں سورج کے غروب ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ اس علاقے سے سورج غروب ہونے سے پہلے روانہ ہو گیا تھا، اور اس نے وہاں غروب آفتاب کا وقت نہیں پایا۔
واللہ اعلم