الحمد للہ.
اصل تو يہى ہے كہ سودى معمالات حرام ہيں، اور ان ميں پڑنا جائز نہيں، اور انہيں سودى شرائط ميں سے كريڈٹ كارڈ كے معاہدہ ميں بھى يہ شرائط موجود ہيں، اور بعض ممالك ميں ان كارڈوں پر زيادہ اعتماد كيا جاتا ہے، حتى كہ كوئي شخص اس كے استعمال سے عليحدہ نہيں ہو سكتا.
مندرجہ ذيل سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا گيا:
ويزا كارڈ سودى شرائط پر مشتمل ہوتا ہے، اگر ادائيگى ميں تاخير ہو جائے تو مجھ پر انہوں نے جرمانہ ركھا ہے، ليكن امريكہ ميں ميں جس جگہ رہائش پذير ہوں وہاں ميرے ليے كارڈ كے بغير گاڑى كرايہ پر حاصل كرنا ممكن ہى نہيں، اور نہ ہى كو جگہ كرايہ پر حاصل كرسكتا ہوں، اور اسى طرح بہت سے عمومى امور بھى ويزا كارڈ كے بغير نہيں كيے جاسكتے، اور اگر ميں اس كے ساتھ لين دين نہيں كرتا تو ميرے ليے بہت زيادہ حرج اور مشكلات پيش آتى ہيں جنہيں ميں برداشت كرنے كى طاقت نہيں ركھتا، تو كيا ميرا وقت محدد ميں ادائيگى پر التزام كرنا تا كہ ميں سود ميں پڑوں ميرے ليے اس كارڈ كے ساتھ لين دين كو مباح كرتا ہے تا كہ اس حرج كو ختم كيا جاسكے جس ميں ميں رہتا ہوں؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اگر تو حرج كا يقين ہو اور وقت مقررہ كے اندر ادائيگى سے تاخير كا احتمال بالكل ضعيف اور كمزور اور نہ ہونے كے برابر ہو تو مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں.
سوال:؟
كيا سودى اور فاسد شرط معاہدے كو باطل كرتى ہے يا نہيں؟
جواب:
اگر معاہدے ميں باطل شرط ہو تو كئى ايك امور كى بنا پر يہ معاہدے كو باطل نہيں كرتى:
( 1 ) ضرورت ( 2 ) اور اس ليے كہ يہ ثابت ہى نہيں ہوتى، كيونكہ آدمى كا ظن غالب يہى ہے كہ وہ ادائيگى كردے گا، اس وجہ سے كہ اس كا ظن غالب يہى ہے كہ وہ ادائيگى كردے گا، اور شرط ثابت نہيں ہوگى، اور ضرورت كى بنا پر - اور يہ آخرى نقطہ اہم ہے - مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں؛ كيونكہ ہمارے پاس ثابت اور تحقيق شدہ امر ہے اور وہ ضرورت ہے، اور ہمارے پاس ايك مشكوك امر ہے جو كہ تاخير ہے، لھذا يقينى امر كا خيال كرنا اولى ہے. واللہ تعالى اعلم.
الشيخ محمد بن صالح العثيمين
واللہ اعلم .