سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سودی لین دین کرنے والے ادارے سے تعلیمی اسکالر شپ حاصل کرنے کا حکم

343162

تاریخ اشاعت : 01-02-2022

مشاہدات : 2595

سوال

میرے ملک میں ایک منظور شدہ ادارہ ہے جو کہ سرکاری سرگرمیوں کے لیے مختص ہے، اس ادارے کی جانب سے ملازمین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے متعدد خدمات پیش کی جاتی ہیں، مثلاً: طبی اخراجات کی ادائیگی، ٹرین پر آنے جانے کے ٹکٹ، مکان کی خریداری کے لیے سودی قرض، لیکن اس میں دیگر بینکوں کی بہ نسبت سود کی مقدار کم ہوتی ہے، معمولی قیمت کے عوض تفریحی پارکوں کے ٹکٹ وغیرہ وغیرہ، اس ادارے کی آمدن کے ذرائع : حکومتی مالی تعاون، عطیات، قرض، اور ممبر حضرات کی اقساط کی رقم پر مشتمل ہیں، جو کہ ان کی سالانہ آمدن کا 2 فیصد ہوتا ہے ۔۔۔ میرے والد محترم بھی اس کی ممبر شپ رکھتے ہیں، اس ادارے کی جانب سے انٹر پاس کرنے والے ممتاز طلبہ کے لیے بہت بڑی رقم اسکالر شپ کے لیے مختص کی جاتی ہے، اور الحمدللہ، اللہ تعالی نے مجھے اس سے بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ، میرے والد صاحب بھی ان کی خدمات کو استعمال کر چکے ہیں، لیکن کچھ عرصے سے مجھے شکوک و شبہات نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے کہ کیا یہ خدمات ہمارے لیے حلال ہیں یا حرام ؟ کیونکہ سب سے پہلے تو یہ سودی قرضے دے کر لوگوں کی اعانت کرتے ہیں، دوسری بات یہ کہ اس ادارے کی انشورنس کمپنیوں سے بہت زیادہ مماثلت ہے؛ کیونکہ ان میں بھی سب لوگ ہی ادائیگی کرتے ہیں، لیکن سب لوگ استفادہ نہیں کرتے، جیسے ممتاز درجے سے کم نمبر حاصل کرنے والے ملازمین کے بچے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے، تو کیا اس صورت میں یہ مال حرام ہو گا، اگرچہ میں نے اس اسکالر شپ کے لیے محنت کی اور اسے حاصل کر لیا! نیز یہ بھی بتلائیں کہ میں اپنے بقیہ مال کے ساتھ کیا کروں؟ واضح رہے کہ میں نے اس میں سے ایک تہائی رقم خرچ کر لی ہے، اور الحمدللہ ، اللہ تعالی نے مجھے یہ رقم اچھے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق دی ہے، تاہم میرے والد صاحب مجھے اس رقم سے جان نہیں چھڑانے دیں گے، اس لیے نہیں کہ وہ شرعی حکم کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اس لیے کہ میں نے یہ اسکالر شپ ان کے معیار کو حاصل کر کے لی ہے، ان سے یہ رقم غصب نہیں کی، اور ویسے بھی میرے والد صاحب اس ادارے میں اقساط جمع کروا رہے تھے۔

جواب کا خلاصہ

اس اسکالر شپ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے یہ ادارہ حرام کاموں میں ملوث ہو یا اس کے بعض ذرائع آمدن حرام ہوں؛ کیونکہ یہ مال اپنے کمائی کے انداز کی وجہ سے حرام ہوا ہے، اس لیے حرام کمانے والے کے لیے یہ مال حرام ہے، لیکن اگر کوئی شخص اسی مال کو بطور عطیہ، انعام وغیرہ جیسے جائز انداز سے حاصل کرے تو اس کے لیے یہ حلال ہے۔ جبکہ آپ کے والد کا اس ادارے میں قسطیں جمع کروانے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے جس کی وضاحت طویل جواب میں موجود ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس اسکالر شپ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے یہ ادارہ حرام کاموں میں ملوث ہو یا اس کے بعض ذرائع آمدن حرام ہوں؛ کیونکہ یہ مال اپنے کمائی کے انداز کی وجہ سے حرام ہوا ہے، اس لیے حرام کمانے والے کے لیے یہ مال حرام ہے، لیکن اگر کوئی شخص اسی مال کو طور عطیہ، انعام وغیرہ جیسے جائز انداز سے حاصل کرے تو اس کے لیے یہ حلال ہے۔

جیسے کہ محمد علیش مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سود اور فاسد بیع جیسے حرام طریقوں سے کمائے گے مال کے بارے میں اختلاف ہے کہ اگر اسے کمانے والا فوت ہو جاتا ہے تو کیا وہ وارثوں کے لیے حلال ہو گا یا نہیں؟ معتمد موقف یہ ہے کہ حلال ہے۔
جبکہ ایسی حرام چیز جس کے مالک کا علم ہے جیسے کہ چوری شدہ یا غصب شدہ مال تو وہ حلال نہیں ہو گا۔"
" منح الجليل شرح مختصر خليل " (2/ 416)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: جو مال؛ کمانے کے طریقے کی وجہ سے حرام ہوا تو اس کا گناہ حرام طریقے سے کمانے والے پر ہو گا، چنانچہ اگر کوئی اس شخص سے جائز طریقے سے وہ مال حاصل کر لیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ تاہم جو مال ذاتی طور پر حرام ہے، جیسے کہ شراب یا غصب شدہ چیز اس کا حکم یہ نہیں ہے۔
یہ موقف بہت مضبوط موقف ہے، اس کے مضبوط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر والوں کے لیے یہودی سے کھانا خریدا، اسی طرح آپ نے خیبر میں یہودی عورت کی تحفہ دی ہوئی بکری کا گوشت کھایا، ایسے ہی ایک یہودی کی دعوت بھی قبول فرمائی، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اکثر یہودی سود خور تھے اور حرام کھایا کرتے تھے۔ اس موقف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی تقویت دے سکتا ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو گوشت صدقے میں دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (یہ گوشت بریرہ پر صدقہ ہے اور ہمارے لیے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔)" ختم شد
"القول المفيد على كتاب التوحيد"(3/ 112)

دوم:

آپ کے والد نے اس ادارے میں قسطیں جمع کروائی ہیں تو اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہے:

  1. اگر اقساط ادا کرنا لازمی ہے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے اس ادارے کے معاملات درست ہوں یا نہ ہوں، اقساط ادا کرنے والا شخص ملنے والے فوائد حاصل کر سکتا ہے؛ چاہے اس کی مقدار ادا شدہ رقم سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
  2. اگر یہ اقساط ادا کرنا لازمی نہیں ہے، اور بچ جانے والی رقم یہ ادارہ اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ یہ ممبر حضرات کے لیے ہی ہوتا ہے، یا پھر ادارہ اس رقم کو ممبر حضرات کے لیے کاروبار میں لگا دیتا ہے، تو پھر یہ جائز انشورنس برائے تعاون ہے۔

اور اس قسم کی انشورنس میں کوئی دقت نہیں ہے، کیونکہ تعاون میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ سب کے سب ادائیگی کرتے ہیں جبکہ فائدہ کچھ لوگ ہی اٹھاتے ہیں، لہذا اس انشورنس میں کسی بھی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رقم جمع کی جاتی ہے مثلاً: وفات، یا بے روز گاری، یا دیت کی ادائیگی، یا تعلیم میں اعلی کارکردگی وغیرہ ، تو جس میں بھی یہ شرائط پائی جائیں تو وہ یہ رقم لے لے، اس صورت میں تمام کے تمام افراد اقساط ادا کرتے ہوئے عطیہ کرنے کی نیت کرتے ہیں، ان کا مقصد اس کا بدلہ لینا ہوتا ہی نہیں ہے، بلکہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو رقم بھی ادا کر رہا ہے اس میں سے اسے کچھ بھی واپس نہیں ملے گا۔

لیکن اگر ادارے کی جانب سے سودی قرض ممبر شپ ہولڈر حضرات کو دیا جاتا ہے، یا انہیں سود کے بدلے میں مکان مہیا کرتا ہے، یا اپنے پاس جمع ہونے والی رقوم کو سودی سرمایہ کاری اکاؤنٹ میں رکھتا ہے تو پھر اس انشورنس کی رکنیت حاصل کرنا جائز نہیں ہے، آپ کے والد پر لازم ہے کہ اس کی رکنیت معطل کروائے؛ کیونکہ سود اور دیگر حرام لین دین کا گناہ تمام کے تمام اراکین پر ہوتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ ادارہ تمام اراکین کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے انہیں بھی سودی لین دین کے علم ہونے کے باوجود اس کی رکنیت بحال رکھنے پر گناہ ہو گا۔

        3. اگر رکنیت کی اقساط اختیاری ہیں، اور اضافی رقم یہ ادارہ خود ہی اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو یہ حرام کمرشل انشورنس ہے۔

انشورنس برائے تعاون اور کمرشل انشورنس میں فرق جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (36955 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب