الحمد للہ.
اول:
اس اسکالر شپ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے یہ ادارہ حرام کاموں میں ملوث ہو یا اس کے بعض ذرائع آمدن حرام ہوں؛ کیونکہ یہ مال اپنے کمائی کے انداز کی وجہ سے حرام ہوا ہے، اس لیے حرام کمانے والے کے لیے یہ مال حرام ہے، لیکن اگر کوئی شخص اسی مال کو طور عطیہ، انعام وغیرہ جیسے جائز انداز سے حاصل کرے تو اس کے لیے یہ حلال ہے۔
جیسے کہ محمد علیش مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سود اور فاسد بیع جیسے حرام طریقوں سے کمائے گے مال کے بارے میں اختلاف ہے کہ اگر اسے کمانے والا فوت ہو جاتا ہے تو کیا وہ وارثوں کے لیے حلال ہو گا یا نہیں؟ معتمد موقف یہ ہے کہ حلال ہے۔
جبکہ ایسی حرام چیز جس کے مالک کا علم ہے جیسے کہ چوری شدہ یا غصب شدہ مال تو وہ حلال نہیں ہو گا۔"
" منح الجليل شرح مختصر خليل " (2/ 416)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: جو مال؛ کمانے کے طریقے کی وجہ سے حرام ہوا تو اس کا گناہ حرام طریقے سے کمانے والے پر ہو گا، چنانچہ اگر کوئی اس شخص سے جائز طریقے سے وہ مال حاصل کر لیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ تاہم جو مال ذاتی طور پر حرام ہے، جیسے کہ شراب یا غصب شدہ چیز اس کا حکم یہ نہیں ہے۔
یہ موقف بہت مضبوط موقف ہے، اس کے مضبوط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر والوں کے لیے یہودی سے کھانا خریدا، اسی طرح آپ نے خیبر میں یہودی عورت کی تحفہ دی ہوئی بکری کا گوشت کھایا، ایسے ہی ایک یہودی کی دعوت بھی قبول فرمائی، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اکثر یہودی سود خور تھے اور حرام کھایا کرتے تھے۔ اس موقف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی تقویت دے سکتا ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو گوشت صدقے میں دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (یہ گوشت بریرہ پر صدقہ ہے اور ہمارے لیے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔)" ختم شد
"القول المفيد على كتاب التوحيد"(3/ 112)
دوم:
آپ کے والد نے اس ادارے میں قسطیں جمع کروائی ہیں تو اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہے:
- اگر اقساط ادا کرنا لازمی ہے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے اس ادارے کے معاملات درست ہوں یا نہ ہوں، اقساط ادا کرنے والا شخص ملنے والے فوائد حاصل کر سکتا ہے؛ چاہے اس کی مقدار ادا شدہ رقم سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
- اگر یہ اقساط ادا کرنا لازمی نہیں ہے، اور بچ جانے والی رقم یہ ادارہ اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ یہ ممبر حضرات کے لیے ہی ہوتا ہے، یا پھر ادارہ اس رقم کو ممبر حضرات کے لیے کاروبار میں لگا دیتا ہے، تو پھر یہ جائز انشورنس برائے تعاون ہے۔
اور اس قسم کی انشورنس میں کوئی دقت نہیں ہے، کیونکہ تعاون میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ سب کے سب ادائیگی کرتے ہیں جبکہ فائدہ کچھ لوگ ہی اٹھاتے ہیں، لہذا اس انشورنس میں کسی بھی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رقم جمع کی جاتی ہے مثلاً: وفات، یا بے روز گاری، یا دیت کی ادائیگی، یا تعلیم میں اعلی کارکردگی وغیرہ ، تو جس میں بھی یہ شرائط پائی جائیں تو وہ یہ رقم لے لے، اس صورت میں تمام کے تمام افراد اقساط ادا کرتے ہوئے عطیہ کرنے کی نیت کرتے ہیں، ان کا مقصد اس کا بدلہ لینا ہوتا ہی نہیں ہے، بلکہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو رقم بھی ادا کر رہا ہے اس میں سے اسے کچھ بھی واپس نہیں ملے گا۔
لیکن اگر ادارے کی جانب سے سودی قرض ممبر شپ ہولڈر حضرات کو دیا جاتا ہے، یا انہیں سود کے بدلے میں مکان مہیا کرتا ہے، یا اپنے پاس جمع ہونے والی رقوم کو سودی سرمایہ کاری اکاؤنٹ میں رکھتا ہے تو پھر اس انشورنس کی رکنیت حاصل کرنا جائز نہیں ہے، آپ کے والد پر لازم ہے کہ اس کی رکنیت معطل کروائے؛ کیونکہ سود اور دیگر حرام لین دین کا گناہ تمام کے تمام اراکین پر ہوتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ ادارہ تمام اراکین کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے انہیں بھی سودی لین دین کے علم ہونے کے باوجود اس کی رکنیت بحال رکھنے پر گناہ ہو گا۔
3. اگر رکنیت کی اقساط اختیاری ہیں، اور اضافی رقم یہ ادارہ خود ہی اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو یہ حرام کمرشل انشورنس ہے۔
انشورنس برائے تعاون اور کمرشل انشورنس میں فرق جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (36955 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم