سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا حاملہ کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے کہ افطار ؟

سوال

کیا حاملہ عورت کےلیے روزہ رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حاملہ عورت بھی دوسروں کی طرح روزے رکھنے کی مکلف ہے ، لیکن اگر اسے اپنی جان کا خطرہ ہویا پھر وہ بچے کی جان کا خطرہ محسوس کرے تواس کے لیے روزہ ترک کرنا مباح ہے ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذيل آیت کی تفسیر میں کہتے ہيں :

اورجواس کی طاقت نہيں رکھتے ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے بوڑھی عمر کے مرد اوربوڑھی عورت کے لیے رخصت تھی کہ روزے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی روزہ افطار کرسکتے ہیں اورہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائيں ۔

اوردودھ پلانے والی اورحاملہ عورت کو جب اپنی اولاد کی جان کا خدشہ ہو تو وہ دونوں روزہ چھوڑیں اوراس کے بدلے میں کھانا کھلائیں ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2317 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواءالغلیل ( 4 / 25 - 18 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

یہ ضروری ہے کہ یہ علم ہونا چاہیے کہ حاملہ عورت کے لیے روزہ چھوڑنا بعض اوقات جائز اورکبھی واجب اورکبھی حرام ہوتا ہے :

جب حاملہ عورت کو روزہ رکھنے میں مشقت ہواوراسے ضرر نہ دے تواس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔

جب روزہ رکھنے کی وجہ سے اس پر یا بچے پر ضرر اورنقصان مرتب ہوتا ہو تو روزہ چھوڑنا واجب ہے ۔

اورجب حاملہ عورت کوروزہ رکھنے میں کوئي مشقت نہ ہوتی ہو تواس کا روزہ ترک کرنا حرام ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت :

وہ عورت قوی اورطاقتور اورنشیط ہو روزہ رکھنے کی وجہ سے اسے کوئي مشقت نہ ہواس کےبچے پر بھی کوئي ضرر نہ ہو تواس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، کیونکہ روزہ چھوڑنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہیں ۔

دوسری حالت :

عورت ثقل حمل کی وجہ سے روزے کی متحمل نہ ہو یا پھر کمزوری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ، تواس حالت میں وہ روزہ نہيں رکھے گی اورخاص کر جب اس کے بچے کو ضرر ہو تواس وقت اس کےلیے روزہ ترک کرنا واجب ہے ۔

دیکھیں فتاوی الشیخ ابن عثيمین ( 1 / 487 ) ۔

شیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

( حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کا حکم مریض کا حکم ہے ، اس لیے جب ان پر روزہ رکھنے میں مشقت ہو توروزہ چھوڑنا مشروع ہے ، اورمریض کی طرح بعدمیں ان روزوں کی قضاء کریں گی ، اوربعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہی کافی ہوگا ، لیکن یہ قول ضعیف اورمرجوح ہے ۔

صحیح یہی ہے کہ ان پر مسافر اورمریض کی طرح قضاء ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

لھذا تم میں سے جو بھی مریض اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 184 )

اوراس پرمندرجہ ذیل حدیث بھی دلالت کرتی ہے :

انس بن مالک الکعنبی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( یقینا اللہ تعالی نے مسافر سے روزہ اورنماز کا کچھ حصہ ختم کردیا ہے ، اورحاملہ اوردودھ پلانے والی سے روزے ) رواہ الخمسۃ ۔ انتھی ۔

دیکھیں تحفۃ الاخوان باجوبۃ مھمۃ تتعلق بارکان الاسلام صفحہ ( 171 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب