ہفتہ 22 رمضان 1446 - 22 مارچ 2025
اردو

کیا ایمان کی تمام شاخیں فرض اور واجب کا درجہ رکھتی ہیں؟

343994

تاریخ اشاعت : 07-02-2025

مشاہدات : 649

سوال

کیا ایمان کی تمام شاخیں واجب کا درجہ رکھتی ہیں؟ یعنی اگر انسان انہیں نہ کرے تو کیا اسے گناہ ملے گا؟

جواب کا خلاصہ

حدیث: (ایمان کی 73 یا 63 سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سے افضل ترین لا الہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔) نے واضح کیا ہے کہ ایمان کی مختلف شاخیں اور متعدد خصلتیں ہیں۔ لیکن اس حدیث نے ہر شاخ کا حکم بیان نہیں کیا، بلکہ صرف اشارہ کر دیا ہے کہ ان شاخوں کی مختلف درجہ بندیاں ہیں۔ اب ان تمام شاخوں کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری کی ساری شاخیں ہی واجب کا درجہ رکھتی ہیں؛ کیونکہ لفظ "ایمان" جب مطلق طور پر بولا جائے تو اس میں تمام قسم کی نیکیاں چاہے واجب ہوں یا مستحب سب شامل ہوتی ہیں۔

الحمد للہ.

ایمان کی شاخوں کے درجات

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایمان کی 63 یا 73 سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سے افضل ترین لا الہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (9) اور مسلم : (35) نے روایت کیا ہے، اور یہ لفظ صحیح مسلم کے ہیں۔

اس حدیث نے واضح کیا ہے کہ ایمان کی مختلف شاخیں اور متعدد خصلتیں ہیں۔ لیکن اس حدیث نے ہر شاخ کا حکم بیان نہیں کیا، بلکہ صرف اشارہ کر دیا ہے کہ ان شاخوں کی مختلف درجہ بندیاں ہیں۔

کیا ایمان کے تمام مرتبے واجب کا درجہ رکھتے ہیں؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
"صحیح مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ: (ان میں سے افضل ترین لا الہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے) تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی تمام تر شاخیں یکساں نہیں ہیں، بلکہ ان میں تفاوت پایا جاتا ہے۔" ختم شد
"فتح الباري" (1 / 53)

اب ان تمام شاخوں کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری کی ساری شاخیں ہی واجب کا درجہ رکھتی ہیں؛ کیونکہ لفظ "ایمان" جب مطلق طور پر بولا جائے تو اس میں تمام قسم کی نیکیاں چاہے واجب ہوں یا مستحب سب شامل ہوتی ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن و سنت میں جہاں کہیں بھی لفظ "ایمان" مطلق طور پر آئے تو اس میں لفظ "البر" یعنی نیکی، لفظ "تقوی" اور لفظ "دین" سب کے معانی شامل ہوتے ہیں جیسے کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے؛ اس لیے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرمایا ہے کہ: (ایمان کی 73 سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سے افضل ترین لا الہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔) تو اس طرح لفظ "ایمان" میں ہر وہ کام شامل ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (7 / 179)

پھر اللہ تعالی نے نماز کو ایمان سے موسوم فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ترجمہ: اور اللہ تعالی تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے، یقیناً اللہ تعالی لوگوں پر بہت زیادہ نرمی کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔[البقرۃ: 143]

اس کی وضاحت ہمیں اس حدیث سے ملتی ہے کہ

ہمیں زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو اسحاق نے بیان کیا، ان کو سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے انصاری ننھیال میں اترے تھے۔ اور آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی اور آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو ( جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا ) تو سب سے پہلی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی مسجد نبوی سے گیا اور اس کا کسی اور مسجد کے پاس سے گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے ۔ دوسری جانب جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھایا کرتے تھے تو یہود اور اہل کتاب خوش ہوتے تھے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انہیں یہ امر ناگوار ہوا۔ زہیر ( ایک راوی ) کہتے ہیں کہ ہم سے ابو اسحاق نے براء سے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ قبلہ کی تبدیلی سے پہلے کچھ مسلمان انتقال کر چکے تھے۔ تو ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا ہو گا؟ تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ترجمہ: اور اللہ تعالی تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے ۔[البقرۃ: 143] ۔ اسے بخاری : (40) نے روایت کیا ہے۔

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عبید اللہ بن موسی کہتے تھے یہ حدیث تمہیں واضح طور پر بتلاتی ہے کہ نماز ایمان کا حصہ ہے، اور اسی بات کو بیان کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں یہی باب قائم کیا ہے اور اسی چیز کو بیان کرنے کے لیے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے۔

یہی استنباط سفیان بن عیینہ اور دیگر علمائے کرام کا ہے کہ نماز ایمان کا حصہ ہے۔ اس آیت کی یہ تفسیر کہ یہاں ایمان سے مراد بیت المقدس کی جانب رخ کر کے ادا کی گئی نمازیں ہیں، سیدنا ابن عباس سے عوفی نے بیان کی ہے، اسی طرح سعید بن مسیب، اور ابن زید سمیت سدی وغیرہ نے بھی بیان کی ہے۔

قتادہ اور ربیع بن انس کہتے ہیں کہ: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں نے کہا کہ : ہمارے ان اعمال کا کیا بنے گا جو ہم اپنے پہلے قبلے کی جانب رخ کر کے کرتے رہے ہیں؟
ان کے اس موقف سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں پر نمازیں ہی مراد ہیں؛ کیونکہ بقیہ اعمال کی بہ نسبت نماز کا تعلق قبلے کے ساتھ خصوصی ہے۔

نیز اکثر مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں کسی قسم کا اختلاف ذکر نہیں کیا، اور بتلایا ہے کہ یہاں ایمان سے مراد نماز ہے، تو گویا اللہ تعالی نے نماز کو ایمان کی نشانی قرار دیا اور یہ عظیم ترین جسمانی عبادت ہے۔" ختم شد
"فتح الباری" (1 / 190)

نمازیں چاہے فرض ہوں یا نفل دونوں ہی ایمان کا حصہ ہیں۔

اس لیے جن اہل علم نے شعب الایمان شمار کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایمان کی شاخوں میں فرض اور نفل دونوں نمازیں ذکر کی ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایمان کی ساخت میں کچھ بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہو سکتا، اسی طرح ایمان میں کچھ واجبات بھی ہیں کہ اگر ان واجبات میں کمی پائی گئی تو صاحب نقص کو سزا ملے گی، ایسے ہی ایمان میں کچھ مستحبات بھی ہیں کہ جن کی عدم موجودگی میں ایمان کا بلند درجہ نہیں مل سکے گا۔ چنانچہ لوگ ایمان کے معاملے میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے، درمیانے درجے کے اور سبقت لے جانے والے ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (7 / 637)

اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی میں ایمان کی ان تمام شاخوں کے نام نہیں بتلائے گئے، جو کہ در حقیقت ترغیب ہے کہ انسان ہر قسم کی نیکی کرنے کی کوشش کرے، واجب کاموں کی پابندی کرے، اور مستحب اعمال کے لیے حسب استطاعت جد و جہد کرے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔

جیسے کہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: شرعی اعمال کو ایمان کہا جاتا ہے، جیسے کہ ہم نے اس کی تفصیلات ابھی ذکر کی ہیں، نیز ایمان کی شاخیں مذکورہ تعداد میں محصور ہیں۔ لیکن شریعت نے گنتی کا وہ عدد واضح نہیں فرمایا، نہ ہی ان کی تفصیل بیان کی ہے۔

کچھ متاخرین نے ایمان کی ان شاخوں کو شمار کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ انہوں نے تمام شرعی امور کو اس انداز سے بیان کیا کہ مطلوبہ تعداد پوری ہو جائے۔ ان کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے؛ کیونکہ ایمان کی شاخیں ان کے ذکر کردہ امور سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں اور مذکورہ امور سے کم بھی؛ کیونکہ کچھ کام ایک دوسرے کے ضمن میں آ جاتے ہیں۔

اس حوالے سے صحیح موقف ابو سلیمان خطابی وغیرہ کا ہے کہ ایمان کی شاخوں کی معین تعداد کا اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہے۔ ایمان کی یہ شاخیں تفصیلی طور پر شریعت میں موجود ہیں، لیکن شریعت نے ہمیں یہ نہیں بتلایا کہ فلاں فلاں کام ایمان کی شاخ ہے، اور نہ ہی ہمیں ان کی معین تعداد بتلائی ہے، نہ ہی ان نیکیوں کے تقسیم ہونے کی کیفیت ذکر کی ہے۔ اگر ہمیں ان کا علم نہیں ہوتا تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہو گا؛ کیونکہ ہمیں شریعت نے اس کا مکلف نہیں بنایا، پھر علم کی کمی سے ہمارے عمل میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی؛ کیونکہ ایمان کی تمام تر شاخوں پر مشتمل امور شریعت میں بڑے ہی مفصل انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ لہذا اب شریعت ہمیں جن کاموں کے کرنے کا حکم دے ہم اسے کر گزریں گے، اور جس کام سے روک دے ہم اس سے رک جائیں گے، چاہے ہمیں ایمان کی شاخوں کی معین تعداد کا علم نہ بھی ہو۔ واللہ اعلم" ختم شد
"المفهم" (1 / 217)

کیا ایمان کی شاخیں حدیث میں مذکور تعداد کے مطابق ہی ہیں؟

اس حوالے سے یہ اشکال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ نیکیوں کی واجب اور مستحب شکلیں حدیث میں مذکور تعداد سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہیں! تو اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے اہل نے کئی جوابات دئیے ہیں، جنہیں ابن رجب رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، آپ کہتے ہیں کہ:

"اہل حدیث اور اہل سنت کے ہاں ہر نیکی ایمان میں داخل ہے، چاہے نیکی کا تعلق بدنی اعمال سے ہو یا قلبی سے یا زبانی سے۔ چاہے نیکی فرض ہو یا نفل۔ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ تو کیا اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ: ایمان کی شاخیں 73 تا 79 تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس تعداد سے کہیں زیادہ بن جاتی ہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کو کسی تعداد میں محدود نہیں کیا جا سکتا؟

اس کے متعدد جوابات دئیے گئے ہیں:

پہلا جواب: یہ کہا جائے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اس وقت ایمانی خصلتوں کی تعداد اتنی ہی تھی پھر اس میں بعد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے آخر میں ایمانی خصلتیں مکمل ہو گئیں۔

یہ جواب محل نظر ہے۔

دوسرا جواب: ایمانی خصلتیں ساری کی ساری 72 تا 79 بنیادی خصلتوں میں محدود ہوں، پھر یہ ممکن ہے کہ ہر خصلت کی ذیلی شاخیں بڑھتی چلی جائیں، اور کچھ نیکیاں ایسی بھی ہیں جن کا کوئی شمار ہی نہ ہو۔ یہ جواب قدرے بہتر ہے۔ اگرچہ بنیادی ایمانی خصلتوں کو اس تعداد میں بیان کرنا مشکل یا ناممکن نظر آتا ہے۔

تیسرا جواب: ستر کا عدد تعداد کے زیادہ ہونے کی طرف اشارہ ہے، اس سے خاص 70 کا عدد مراد نہیں ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے کہ: إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ترجمہ: اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں تو اللہ تعالی انہیں پھر بھی معاف نہیں فرمائے گا۔ [التوبہ: 80] تو یہاں پر ستر کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ یہاں کثرت مراد ہے۔ یہاں پر کچھ متقدم محدثین کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ حدیث میں لفظ "بضع" سے یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ فرما رہے ہوں کہ ایمان کی شاخیں ستر اس سے زیادہ ہیں۔ لیکن یہ جواب بھی محل نظر ہے۔

چوتھا جواب: یہاں 73 تا 79 تک ایمان کی اعلی ترین خصلتوں کی تعداد پہنچتی ہے، اور یہ وہ ہیں جن کی عمومی طور پر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہ ہمارے فقہائے کرام میں سے ابن حامد نے بیان کیا ہے۔" ختم شد
"فتح الباری" (1 / 30-31)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب