الحمد للہ.
خاوند اور بيوى كے ليے سيكسى قصے اور كہانياں پڑھنے ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
اول:
يہ قصے اور كہانياں يا تو خديدى جائيں گى يا پھر كسى سے عاريتا حاصل كى جائينگى، اور ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ اس ميں اس طرح كے قصے كہانياں نشر كرنے اور ان كو رواج دينے ميں معاونت ہوتى ہے.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).
دوم:
اس ليے كہ يہ قصے اور كہانياں تو فاسق و فاجر قسم كے افراد بھى تاليف كرتے ہيں، اور اكثر طور پر تو اس كے رائٹر كافر ہوتے ہيں جو نہ تو كسى دين كا خيال ركھتے ہيں اور نہ ہى لكھنے ميں ادب و اخلاق كو مدنظر ركھتے ہيں.
اور اس طرح كے قصے اور كہانياں پڑھنا ان كى غلط اور گندى عادات كو لوگوں ميں پھيلانے كا ايك وسيلہ ہے جس كا انسان كو شعور تك نہيں ہوتا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نيك و صالح اور برے دوست كى مثال ايك خوشبو اور كستورى والے اور بھٹى دھونكنے والے جيسى ہے، كستورى اور خوشبو والا يا تو تمہيں تحفہ دے گا، يا پھر آپ اس سے خريد ليں گے، يا پھر اس سے اچھى خوشبو پائيں گے.
ليكن بھٹى دھونكنے والا يا تو آپ كے كپڑے جلا دے گا يا پھر آپ اس سے بدبو اور دھواں پائيں گے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5543 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2628 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں ايسے افراد كے ساتھ كے ساتھ ميل جول ركھنے اور بيٹھنے سے ممانعت پائى جاتى ہے جن كے ساتھ بيٹھنے سے دين و دين كو نقصان ہوتا ہو"
ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 410 ).
سوم:
ان قصے اور كہانيوں ميں جھوٹ اور مبالغہ اور ايسے واقعات كا تصور پايا جاتا ہے جن كى كوئى اصل نہيں ہوتى اور ان كا قارى پر سلبى اور منفى اثر ہوتا ہے، اور گناہ و تنگى اور خاوند اور بيوى كى ايك دوسرے سے عدم رضا كا باعث بنتا ہے.
چہارم:
اس طرح كے قصوں كا اولاد كے ہاتھوں ميں آ جانے سے انميں اخلاقى بگاڑ كا باعث بنتا ہے، اور انہيں رزيل اور گھٹيا اخلاق كى طرف لے جانے كا سبب ہے يا پھر ان ميں اپنے والدين كے بارہ ميں غلط گمان پيدا كرتا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں والدين كو شعور بھى نہيں ہوگا اور انہيں اپنى اولاد كے گناہوں كا بوجھ اٹھانا پڑيگا اور پھر نادم ہونے كا كوئى فائدہ بھى نہيں.
مندرجہ بالا خرابيوں وغيرہ كى بنا پر اس طرح كے قصے اور كہانياں پڑھنا بالكل جائز نہيں نہيں، اور پھر حلال چيز ميں ہى كفائت ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے جو مباح اشياء ركھى ہيں اس ميں ہى لذت و فائدہ حاصل كرنا بہتر اور صحيح ہے، جس سے اللہ بھى راضى ہوتا ہے، اور پھر انفرادى اور معاشرتى تحفظ بھى حاصل ہوتا ہے، اور معاشرے ميں گھٹيا پن اور اخلاقى بگاڑ بھى نہيں پيدا نہيں ہوتا.
واللہ اعلم