الحمد للہ.
جن اسباب كى بنا پر نماز ميں سجدہ سہو كرنا مشروع ہے يا تو وہ نماز ميں كسى زيادتى يا نقصان يا پھر نماز ميں شك كى بنا پر كہ ركعات كا علم نہ رہے وغيرہ اسباب كا بيان گزر چكا ہے اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 12527 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ذہن منتشر ہونے كى بنا پر سجدہ سہو كرنا جس كا ذكر سوال ميں ہوا ہے ان اسباب ميں شامل نہيں ہوتا جن كى بنا پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے.
شيخ بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
( ـ سجدہ سہو ـ كئى ايك اسباب كى موجودگى جو كہ زيادتى يا نقصان اور نماز ميں شك كى وجہ سے مشروع ہے... ، نہ تو يہ نماز جنازہ ميں ہے، اور نہ ہى دل ميں خيال پيدا ہونے سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے، كيونكہ خيالات سے بچنا ممكن ہى نہيں، يہ معاف ہے ).
ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 465 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
جب ميں تكبير تحريمہ كہہ كر سورۃ فاتحہ پڑھنے لگتا ہوں تو ہميشہ بھول جاتا اور ميرا خيال مسجد سے باہر نكل جاتا ہے، سارى نماز ميں ہى يہ كيفيت رہتى ہے .
كميٹى كا جواب تھا:
( جب آپ نماز كے واجبات اور فرائض ادا كرتے ہوں تو آپ كى نماز صحيح ہے، ہمارى آپ كو نصيحت ہے كہ آپ حتى الوسع پورى قوت كے ساتھ اپنے آپ سے شيطان كو دور كرنے كى كوشش كريں، تا كہ آپ سے يہ وسوسہ ختم ہو اور شيطان كى سازش ناكام ہو جائے.
اس سلسلے ميں ممد و معاون اشياء يہ ہيں كہ آپ اللہ تعالى كى طرف رجوع كريں، اور قرآت شروع كرتے وقت اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھيں اور ہر وقت اعوذ باللہ اپنے دل ميں پڑھتے رہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد كے معانى پر غور وفكر كريں جو آپ كو اللہ تعالى كى عظمت تك راہنمائى كرينگے.
اور اللہ اكبر، لا الہ الا اللہ، سبحان اللہ، اور الحمد للہ پڑھتے رہيں، اور يہ ياد ركھيں كہ آپ نماز ميں اللہ تعالى كے سامنے ہيں، اور آپ اس سے سرگوشي كر رہے ہيں، اس ليے آپ پر اس كے ساتھ ادب اختيار كرنا واجب ہے، اور اس كے ساتھ سرگوشياں اور اس سے دعاء ميں دل كو مشغول ركھنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى سے اميد ركھيں كہ وہ آپ سے شيطان كى سازشيں اور وسوسے ختم كر كے شيطان سے محفوظ ركھے گا، اميد ہے اللہ تعالى آپ كو اپنى طرف رجوع كرنے اور شيطان سے اعراض كى توفيق نصيب فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 156 ) اور ( 7 / 36 ).
فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
عورت بہت سوچ و بچار ميں مشغول رہتى ہے اور نماز ميں اس كا ذہن منتشر رہتا ہے، كيا وہ اپنى نماز لوٹائے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
( وسوسہ شيطان كى جانب سے ہوتا ہے، آپ كے ليے نماز ميں اطمنان اور اس كى طرف دھيان اور پورا خيال ركھنا ضرورى ہے، تا كہ آپ پورى بصيرت كے ساتھ نماز ادا كر سكيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
( يقينا وہ مومن كامياب و كامران ہيں جنہوں نے اپنى نماز ميں خشوع و خضوع اختيار كيا ﴾.
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو نماز مكمل ادا نہ كرتے ہوئے اور عدم اطمنان كے ساتھ نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو اسے نماز لوٹانے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" جب نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو مكمل وضوء كرو، اور پھر قبلہ رخ ہو كر تكبير تحريمہ كہو، پھر جو آسانى سے قرآن پڑھ سكو پڑھو، پھر اطمنان كے ساتھ ركوع كرو، پھر ركوع سے سر اٹھاؤ حتى كہ سيدھے كھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ كرو حتى كہ سجدہ سے مطمئن ہو جاؤ، پھر سر اٹھاؤ حتى كہ بيٹھنے سے مطمئن ہو جاؤ، پھر سجدہ كرو حتى كہ سجدہ ميں اطمنان ہو جائے، پھر سارى نماز ميں ايسے ہى كرو "
متفق عليہ.
جب آپ كو ياد ہو گا كہ آپ نماز ميں اللہ سبحانہ وتعالى كے سامنے كھڑى اس سے سرگوشياں كر رہى ہيں تو يہ چيز آپ كو نماز ميں خشوع و خضوع اور نماز كى طرف متوجہ ہونے، اور شيطان سے دور ہونے اور وسوسہ سے سلامتى كى دعوت دے گى.
اور جب آپ نماز ميں وسوسے كثرت سے آنے لگيں تو آپ اپنى بائيں جانب تين بار تھو تھو كريں اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھيں، اس سے ان شاء اللہ وسوسے جاتے رہينگے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اپنے ايك صحابى كو ايسا كرنے كا حكم ديا تھا، جب ايك صحابى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم شيطان ميرى نماز خراب كرتا ہے "
ديكھيں: صحيح مسلم حديث نمبر ( 2203 ).
وسوسہ كى بنا پر آپ نماز نہ لوٹائيں؛ بلكہ اگر سجدہ سہو واجب كرنے والا كوئى كام كر بيٹھيں تو سجدہ سہو كر ليں، مثلا بھول كر پہلى تشھد چھوٹ جائے، اور ركوع و سجود ميں سبحان ربى العظيم اور سبحان ربى الاعلى بھول جائيں.
اور اگر آپ كو شك ہو كہ مثلا ظہر كى تين ركعت ادا كى ہيں يا چار تو آپ اسے تين ركعت بنائيں اور نماز مكمل كر كے سلام سے قبل سجدہ سہو كر ليں.
اور اگر مغرب كى نماز ميں شك ہو كہ دو ركعت ادا كى ہيں يا تين تو اسے دو ركعت بنائيں اور نماز مكل كر كے سلام سے قبل سجدہ سہو كر ليں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى حكم ديا ہے.
اللہ ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 260 ).
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر دوران نماز انديشے اور وسوسے غالب آجائيں تو نماز كا حكم كيا ہو گا ؟ اور اس سے كيسے چھٹكارا حاصل كيا جا سكتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
( جب نماز ميں انسان پر دنياوى امور يا پھر دينى امور كے انديشے اور خيالات غالب آ جائيں، مثلا اگر كوئى طالب علم ہے تو دوران نماز علمى مسائل پر سوچ و بچار كرنا شروع كردے، اگر ايسا ہو تو اس حالت ميں حكم يہ ہے كہ اكثر اہل علم كے ہاں نماز صحيح ہے، ان وسوسوں كى بنا پر باطل نہيں ہو گى، ليكن بہت زيادہ ناقص ہے، ہو سكتا ہے انسان نماز سے فارغ ہو تو اسے نماز كا نصف يا پھر چوتھائى يا دسواں حصہ ثواب حاصل ہو، يا اس سے بھى كم ).
جيسا كہ صحيح المسند ( 18400 ) اور سنن ابو داود حديث نمبر ( 796) ميں ہے.
ليكن وہ نماز كى ادائيگى سے برى الذمہ ہو جائيگا، يعنى اس كى نماز ادا ہو جائيگى، چاہے وسوسے زيادہ ہى ہوں، ليكن انسان كو اپنى نماز ميں دل كو حاضر ركھنا چاہيے؛ كيونكہ يہى خشوع ہے، اور خشوع ہى نماز كى روح اور مغز ہے.
اس كا علاج يہ ہے كہ انسان وہ كام كرے جس كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كہ:
اپنى بائيں جانب تين بار تھو تھو كرے اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم تين بار پڑھے، جب ايسا كرے گا تو اللہ تعالى يہ وسوسے اس سے دور كر دے گا.
ليكن جب مقتدى صف ميں ہو تو تھوكنا ممكن نہيں، اس ليے كہ اس كے بائيں جانب لوگ ہيں، اس ليے وہ صرف اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھنے پر ہى اكتفا كر لے، جب ايسا تكرار سے كرے گا تو اللہ تعالى اس سے يہ وسوسے دور كر دے گا.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 / 88 ).
واللہ اعلم .