الحمد للہ.
جى ہاں آپ كے ذمہ قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، آپ نے اپنے والد كو راضى كر كے اچھا كام كيا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے قسم اٹھائى اور پھر اس نے اس سے بہتر كام ديكھا تو وہ بہتر اور افضل كام كر لے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كرے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1650 ).
ليكن اگر آپ كے اس شہر ميں جانے سے اللہ تعالى كى حرام كردہ كا وقوع لازم آتا ہو، تو پھر آپ كو چاہيے كہ وہاں جائے بغير ہى اپنے والد كو راضى كر كے اپنى قسم كى حفاظت كريں.
اور قسم كا كفارہ درج ذيل ہے:
دس مسكينوں كو كھانا دينا، يا انہيں لباس مہيا كرنا، يا غلام آزاد كرنا، اور جو كوئى يہ نہ پائے تو وہ تين يوم كے روزے ركھے، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو كپڑا دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).
اور جمہور علماء كے ہاں نقدى كى صورت ميں كفارہ ادا نہيں ہوتا.
واللہ اعلم .